قاضی جمشید عالم صدیقی، علاّمہ اقبال ٹاؤن، لاہور
کہتے ہیں کہ حکمت و دانائی کی بات جہاں سے ملے، لے لو، کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی ودیعت کردہ ہوتی ہے۔ لوگ ایک عُمر تک دشتِ دنیا کی صحرا نوردی کرتے ہیں، مگر حکمت و دانائی سے محروم رہتے ہیں۔ فہم و فراست کا از خود دعویٰ کرنا حماقت ہے اور احمق آدمی سے بچنا ہی فہم و فراست ہے۔
بر محل بات کرنا، جو بات نہیں کرنی چاہیے، اُسے نہ کرنا، غُصّے کی بجائے دلیل اور منطق سے جواب دینا، نیز فضول اور لا حاصل بحث سے اجتناب ہی دانائی ہے، لیکن یہ خاصی کم یاب جنس ہے، جب کہ اس کے برعکس ہمارے معاشرے میں گُھٹن اور تنگ نظری کچھ زیادہ اثر دکھا رہی ہے اور اس معاشرتی بگاڑ کا اثر براہِ راست ہمارے رویّوں پر پڑ رہا ہے۔ معاشی اُونچ نِیچ، معاشرتی تفاوت، سیاسی افراتفری و تقسیم، غُصّہ اور جھنجھلاہٹ سمیت دیگر معاشرتی بیماریوں نے ہمارے رہن سہن اور رویّوں کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔
ہم نے شاید مثبت سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ آپ کسی دوست سے بات کریں یا کسی تقریب میں چلے جائیں، وہاں آپ کو مایوس کُن باتیں کرنے والے لوگ زیادہ ملیں گی۔ ہر شخص اپنے حالات اور مُلکی صورتِ حال کی شکایت کرتا دکھائی دے گا اور اُسے مُلک میں ہونے والے بہتر کام شاید ہی نظر آئیں گے، حالاں کہ ہمیں ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کرنا چاہیے۔
یاد رہے، محنت کرنا، زمانے کی دوڑ میں شامل ہونا، کسی ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے سعی و کوشش بُری بات نہیں، بلکہ بُری بات یہ کہ انسان ہر وقت اپنے حال سے غیر مطمئن ہو اور ہمہ وقت گلے شکوے کرتا رہے۔ شُکر گزاری کی بجائے آہ و زاریاں کرتا رہے۔ ناشُکرا انسان صرف مایوسی پھیلانے والی باتیں کرتا ہے، جب کہ رہی سہی کسر سوشل میڈیا نکال دیتا ہے، جہاں سارا دن فیشن اور گلیمرکو مقصدِ حیات بنا کر پیش کیاجاتا ہے۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہر فرد کی ذات کے کچھ منفی پہلو ہوتے ہیں، لیکن اگر تمام تر کم زوریوں کے باوجود آپ کسی شخص کا کوئی مثبت پہلو تلاش کر کے اس کی تعریف کر دیں، کچھ حوصلہ افزائی کر دیں، تو وہی شخص اپنی استعداد سے بڑھ کر ڈیلیور کرے گا اور اس کا اعتماد بڑھے گا۔ یاد رہے، ہمارا روزانہ اپنے ہی جیسے انسانوں سے واسطہ پڑتا ہے اور ان سے عام انسانوں والے رویّے ہی کی توقّع رکھنی چاہیے، جب کہ آئیڈیلزم کی کوئی گنجائش نہیں۔
آپ لوگوں کے بارے میں اچّھا گُمان رکھنا شروع کر دیں، تو لوگ آپ کو اچّھے لگنا شروع ہو جائیں گے۔ معاشرے سے نفرت و کدورت اور بغض و عناد کو مٹانے کے لیے محبتّیں اور مثبت رویّے تقسیم کرنا ہوں گے اور آج کل باہمی محبّت اور احترام قائم رکھنے کا سب سے آسان نسخہ یہ ہے کہ اپنی سوچ، فکر اور رویّوں کو مثبت رکھیں اور باہمی عزّت و احترام پر مبنی رشتے قائم کریں۔ اسی سے معاشرے میں بہتری آئے گی ان شاء اللہ۔