• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سعودی عرب میں ہر سال 23؍ستمبر کو قومی یومِ سعودی عرب کے طور پر منایا جاتا ہے۔ یہ دن 1932ء میں شاہ عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود کے ذریعے مملکتِ سعودی عرب کے قیام کی مناسبت سے یوم تاسیس کے طور پر منایا جاتا ہے۔ سعودی حکومت اور عوام کی طرف سے اِس دن مختلف روایتی تہواروں اور تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، سڑکوں اور عمارتوں کو سعودی پرچموں سے سجایا جاتا ہے اور لوگ سبز اور سفید لباس زیب تن کرتے ہیں، مملکت کو سبز اور سفید سعودی غباروں سے سجایا جاتا ہے۔ 23 ستمبر کو مملکتِ سعودی عرب کے قومی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ ممتاز سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز آل سعود کے دور میں اگست 1965ء میں اُن کی طرف سے جاری کردہ ایک شاہی فرمان کے تحت کیا گیا اور اِسی سال 23ستمبر کو پہلی بار یہ دن باقاعدہ سرکاری طور پر منایا گیا۔موجودہ سعودی حکمران شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سعودی عرب کو جدید اسلامی ریاست بنانے کے خواہاں ہیں۔ وژن 2030ء کے تحت شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے تیل پر انحصار کم کرنے کیلئے اقتصادی اور سماجی اصلاحات اور سیاحت و ثقافت سمیت مختلف شعبوں میں اصلاحات کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ اِن اقدامات کا مقصد مملکتِ سعودی عرب کو ایک جدید اسلامی ریاست کے طور پر پیش کرنا، بیرونی سرمایہ کاری کو فروغ دینے کیلئے نئے مواقع پیدا کرنا، خواتین کو بااختیار بنانا اور مختلف تفریحی، تجارتی، سیاحتی منصوبوں کے ذریعے بین الاقوامی برادری میں سعودی عرب کا اِمیج بہتر بنانا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کی صورتِ حال اور غزہ پر اسرائیلی جارحیت کےحوالے سے بھی سعودی حکمرانوں کا قائدانہ کردار، بالخصوص مختلف ممالک پر اسرائیلی بلااشتعال حملوں اور اہلِ غزہ کو اپنی سرزمین سے جبری بیدخلی کے حوالے سے امریکی صہیونی عزائم کیخلاف سعودی عرب نے مسلسل جراتمندانہ مؤقف پیش کیا ہے، اور وہ آج بھی اپنے اس مؤقف پر مضبوطی کیساتھ قائم ہیں کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کیساتھ باقاعدہ تعلقات قائم نہیں ہوسکتے۔عالمی شہرت یافتہ سعودی حکمران شاہ فیصل بن عبدالعزیز مرحوم تو برملا پاکستان کو اپنا ملک اور اسلام کا قلعہ قرار دیتے تھے۔ جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو شاہ فیصل شہید ہی تھے جو دھاڑیں مار مار کر روتے تھے اور فرماتے تھے’آج میرا کوئی بیٹا ہلاک ہو جاتا تو مجھے اتنا دُکھ نہ ہوتا جتنا پاکستان کے ٹوٹنے کا ہوا ہے‘۔ 1998ء میں جب پاکستان نے بھارتی ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کیے تو سعودی عرب کے عوام بھی خوشی سے اُچھلتے اور نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے رہے، گویاکہ وہ خود ایٹمی طاقت بن گئے ہوں۔ ایٹمی دھماکوں کے بعد امریکہ و دیگر ممالک نے پاکستان پر معاشی پابندیاں لگائیں تو سعودی عرب نے پاکستان کیلئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے اور عرصہ دراز تک پاکستان کو مفت تیل فراہم کرتا رہا۔ پاکستان اور اہل پاکستان پر جب بھی کڑا وقت آیا سعودی عرب نے پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے۔ 2014ء میں پاکستان کو سعودی عرب کی طرف سے ڈیڑھ ارب ڈالر امانتاً ملے، جس سے پاکستانی معیشت اور کرنسی کو سہارا ملا اور ڈالر 112سے 98روپے پر آ گیا۔ سعودی ولی عہد کے فروری 2019ء میں دورہ پاکستان کے موقع پر 20 ارب ڈالر کے منصوبوں پر دستخط ہوئے۔ سعودی ولی عہد نے وزیراعظم پاکستان کی درخواست پر اُن 2107ء پاکستانی قیدیوں کی رہائی کا حکم دیا جو مختلف معمولی نوعیت کے مقدمات میں سعودی جیلوں میں قید تھے۔اسی طرح شاہ سلمان ریلیف فنڈ کی جانب سے دیگر کئی مواقع پر پاکستان کی فوری مدد کی گئی۔ 2022ء کے تباہ کن سیلاب متاثرین کیلئے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کی ہدایت پر سعودی عوام نے دل کھول کر عطیات دیے اور سیلاب متاثرین کی بحالی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہوئے 420 ٹن امدادی سامان زلزلہ متاثرین میں تقسیم کیا۔ گزشتہ سال اکتوبر کا مہینہ پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے بہت اہمیت کا حامل رہا۔ 2 تا 4 اکتوبر 2024ء کو ملائیشین وزیراعظم انور ابراہیم وفد کے ہمراہ دورہ پاکستان پر تشریف لائے، 10 تا 12 اکتوبر 2024ء سعودی وزیر سرمایہ کاری شیخ خالد بن عبدالعزیز 130 ارکان پر مشتمل اعلیٰ سطحی سرمایہ کاری وفد کے ہمراہ پاکستان آئے اور دونوں برادر ملکوں کے درمیان باہمی تجارت اور تعمیر و ترقی کے متعدد منصوبوں پر دستخط ہوئے۔ اِسی طرح 13اکتوبر 2024ء کو تعطیل کے باوجود چائنا ایشیا اکنامک ڈویلپمنٹ کے ایک وفد نے بھی FPCCI کے سرمایہ کاروں کیساتھ پاکستان میں جوائنٹ وینچرز اور سرمایہ کاری کیلئے فیڈریشن ہاؤس میں B2B ملاقاتیں کیں جبکہ 15اور 16اکتوبر 2024ء کو SCO سمٹ کے موقع پر چین، روس اور ایران کے سربراہان مملکت سمیت 7 وزرائے اعظم، ایک نائب صدر اور بھارت سمیت شنگھائی تعاون تنظیم (SCO)کے ممبر ممالک کے وزرائے خارجہ نے SCO اجلاس میں شرکت کی۔ ان تقریبات کے انعقاد سے عالمی سطح پر پاکستان کا مثبت تاثر ابھرا۔ غیرملکی وفود پر مشتمل مذکورہ بالا افراد بالخصوص سعودی وزیر سرمایہ کاری اور انکے وفد کی سرگرمیوں کو پوری دنیا کے میڈیا میں نہایت اہمیت دی گئی۔ سعودی وزیر سرمایہ کاری شیخ خالد بن عبدالعزیز کی قیادت میں آنے والے سرمایہ کاری وفد نے پاکستان میں مجموعی طور پر 5ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعادہ کیا۔ سعودی عرب نے بلوچستان کے سونے اور تانبے کے بیرک گولڈ (ریکوڈک) منصوبے میں 15فیصد شیئرز خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی۔ اسکے علاوہ گوادر میں سعودی آئل کمپنی آرامکو کیساتھ آئل ریفائنری کے جوائنٹ وینچرپر بھی مذاکرات کیے۔ دفاعی سطح پر بھی پاک سعودی تعلقات بلندی کی نئی سطحوں کو چھورہے ہیں جو آنے والے دِنوں میں مزید مضبوط اور مستحکم ہونگے۔ پاک فوج کی ایک قابلِ ذکر تعداد حرمین الشریفین کی حفاظت کے پیشِ نظر ہمیشہ سعودی عرب میں مقیم رہتی ہے جبکہ افواجِ پاکستان کی طرف سے سعودی افواج کی تربیت کا سلسلہ بھی عرصہ دراز سے جاری ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں قائم کم و بیش 40 اسلامی ممالک کے عسکری اتحاد کی قیادت بھی روزِ اول یعنی دسمبر 2015ء سے ہی پاکستان کے پاس ہے۔ سعودی حکومت اور عوام کی پاکستانی عوام کیلئے اس بے لوث، والہانہ جذبہ خیرسگالی اور محبت نے دونوں برادر اسلامی ملکوں کو دوستی اور محبت کے ایسے لازوال رشتے میں پرو دیا ہے جو انشاء اللہ رہتی دنیا تک قائم و د ائم رہے گا۔

تازہ ترین