• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ بیٹیاں قوم کی عزت ہوتی ہیں ،اسی طرح پاکستانی قوم کی بھی ایک بیٹی مسلسل 23 برس سے مظالم کا سامنا کررہی ہے ،قوم کی اس بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جدائی پوری صدیقی فیملی کے لئے ایک بہت بڑی آزمائش ہے ، جس وقت عافیہ کی گمشدگی کی اطلاع ملی، یہ کسی دھماکے سے کم نہیں تھی، طویل عرصے بعد اس کی افغانستان میں موجودگی اور پھر اسے جھوٹے مقدمے میں سزا سنائے جانے کے پے درپے صدموں نے بلا شبہ پورے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا ، لیکن آنیوالے دنوں میں پاکستانی قوم نے یہ ثابت کیا کہ ہمارا غم ان کا غم ہے، ہمیں معاشرے کے ہر طبقے سے بھرپور ڈھارس ملی اور ایک خوفزدہ مایوس خاندان اس قابل ہوا کہ اپنی بیٹی کی رہائی کے لئے جدوجہد کرسکے۔ اس کی رہائی کی جدوجہد میں صحافیوں، سیاسی رہنماؤں، وکلا ، طلبہ، عدلیہ ہر جانب سے تعاون ملا اور اس جدوجہد سےعافیہ کے دو بچے مل گئے ،لیکن اس جدوجہد میں ہمارے بائیس برس گزرگئے، عافیہ نے اب تک چوالیس عیدیں قید میں گزاریں،اس سارے معاملے کو ہم امریکی عدالتی نظام کی خرابی قرار دیتے ہیں، اس اعتبار سے23 ستمبر امریکی عدالتی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے - اس روز عافیہ کو جرم بے گناہی میں 86 سال قید کی سزا سنادی گئی اور یہاں سے پاکستانی حکمرانوں اور عدالتی نظام کا امتحان شروع ہوا،اس امتحان میں حکمران ،عدلیہ اور ہمارے طاقتور طبقات کس حد تک کامیاب ہوئے اور کتنے ناکام ہوئے، اس کا فیصلہ تاریخ کریگی ،جو بے رحم ہوتی ہے۔23ستمبر، 2010ءامریکا ہی نہیں دنیا کی عدالتی تاریخ کا وہ بھیانک دن ہے جب انصاف کے تمام تقاضوں کوپامال کرتے ہوئے ایک امریکی متعصب جج رچرڈ برمن نے حکومت پاکستان کے مقرر کر دہ وکلاءکی سازش کے تحت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86برس کی سزا سنائی تھی۔جج نے اپنے فیصلے میں تسلیم کیا کہ ڈاکٹر عافیہ جو کہ پاکستانی شہری ہے ،اس کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عافیہ پر الزام لگایا کہ اس نے 6امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور بندوق اٹھائی، ان پر گولیاں چلائیں۔ جو الزام لگایا گیا تھا اس کے نتیجے میں کسی امریکی فوجی کو نقصان نہیں پہنچا تھا جبکہ ڈاکٹر عافیہ ان کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہو گئی تھی۔ جج نے اپنے فیصلے میں یہ بات لکھی کہ باوجود اس کے کہ عافیہ کیخلاف کسی قسم کے ثبوت موجود نہیں ہیں لیکن پاکستانی حکومت کے وکلاءنے جو دلائل دئیے ہیں اس کی روشنی میں عافیہ کو 86برس کی سزا دی جا رہی ہے۔ وہ کیا دلائل تھے یہ الگ کہانی ہے ، لیکن ابھی تو عافیہ کی رہائی اولین مسئلہ ہے۔سزا کے بعد عافیہ نے عدالت میں کہا تھا کہ میں نے اپنا فیصلہ اللہ کی عدالت پر چھوڑ دیا ہے،میں سب کو معاف کرتی ہوں۔ عافیہ تو معاف کرکے اللہ کی عدالت میں مقدمہ درج کرواکر بہترین پوزیشن میں ہے ، جوابدہی توہمیں کرنی ہے جو باہر ہیں اور بظاہر آزاد ہیں ۔ عدالتی فیصلے کے بعد امریکی سول سوسائٹی نے بھی کہا کہ آج امریکی عدالت میں امریکی انصاف کا قتل ہو گیا ہے۔ ادھر پاکستان میں بھی کچھ عناصر ڈاکٹر عافیہ کی واپسی سے خوف زدہ ہیں، جبکہ ڈاکٹر عافیہ کی فیملی ایک دو نہیں کئی مرتبہ یہ بات کہہ چکی ہے کہ ہم کسی سے انتقام نہیں لیں گے، عافیہ کو باعزت طریقے سے وطن واپس لے آؤ ۔ مشہور امریکی ریسرچ اسکالر اسٹیفن لینڈ مین نے عافیہ کی سزا پرکہاتھا کہ ”عافیہ کو صرف مسلمان ہونے کی سزا دی گئی ہے“۔ متعصب امریکی وکیل و تجزیہ نگار اسٹیون ڈائونز جس نے ہمیشہ عافیہ کی مخالفت میں تحریریں لکھیں وہ بھی اس نا انصافی پر چیخ اٹھا تھا ’’میں ایک مردہ قوم کی ایک بیٹی کی سزا کا مشاہدہ کرنے (امریکی عدالت) چلا گیا تھا لیکن میں انسانیت کی ماں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اپنا سب سے زیادہ خراج تحسین پیش کرکے باہر آیا ہوں‘‘۔ تازہ صورتحال یہ ہے کہ عافیہ کی صحت انتہائی خراب ہے۔ عافیہ کے ساتھ ایف ایم سی کارسویل جیل میں مسلسل بدسلوکی جس میں ذہنی و جسمانی تشدد اور جنسی ہراسگی شامل ہے، ہورہی ہے۔اس کی تمام تفصیل پاکستانی حکام اور عدالتوں کے علم میں ہے۔ حال ہی میںاسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کی بدولت کچھ برف پگھلی تھی۔ دو دہائی کے بعد میری اپنی بہن سے جیل میں ملاقات عدالتی احکامات ہی کا نتیجہ تھی۔مگر پھر اچانک وزارت خارجہ کی طرف سے اپنے سابقہ موقف سے انحراف کرتے ہوئے غیرحقیقت پسندانہ موقف اپنایا گیاکہ حکومت نے عافیہ کیلئے سب کچھ کردیا ہے اس لیے کیس خارج کیا جائے۔ اس حکومتی موقف پر دنیا حیران ہے، عدالتی احکامات کی بار بار عدم تعمیل پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے حکومت اور وفاقی کابینہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔جس کے بعد روایتی محکمہ جاتی طریقہ اپناتے ہوئے عافیہ کا کیس جسٹس سرداراعجاز اسحاق کی عدالت سے جسٹس راجا انعام امین منہاس کی عدالت میں منتقل کردیا گیا۔پہلی سماعت پر محترم جج صاحب نے عافیہ کا کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کو واپس بھیج کر لارجر بینچ بنانے کی استدعا کردی۔ جس پر جسٹس ارباب محمد طاہر کی سربراہی میں جسٹس خادم حسین سومرو، جسٹس محمد اعظم خان اور جسٹس راجا انعام امین منہاس پر مشتمل چار رکنی بینچ تشکیل دے کر 10ستمبر کو سماعت مقرر کی گئی مگر ایک محترم جج صاحب کی غیرحاضری کے باعث سماعت بغیر کسی کارروائی کے ملتوی ہو گئی۔ عدلیہ سے امید ہے کہ انصاف کرکے اپنا وقار بلند کریگی،ورنہ لگتا تو یہی ہے کہ شاید کچھ مزید تاریخیں پڑ جائیں کچھ اور حیلے ہوجائیں لیکن اللہ کی جس عدالت میں عافیہ نے مقدمہ دائر کر دیا ہے، وہاں کوئی بنچ نہیں بدل سکے گا کوئی دباؤ کام نہیں آئے گااور فیصلہ بھی مبنی بر انصاف ہوگا۔

تازہ ترین