امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی عالمی کوششوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور ان پالیسیوں کو ایک ’’اسکیم‘‘ یعنی دھوکہ قرار دیا۔ انہوں نے عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ ان ماحولیاتی پالیسیوں کو مسترد کر دیں۔
ٹرمپ نے اقوام متحدہ پر بھی سخت الفاظ میں تنقید کی اور کہا کہ یہ عالمی ادارہ اپنی اصل صلاحیت سے ’’کہیں قریب بھی نہیں‘‘ پہنچا۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ مختلف ممالک کے درمیان امن قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو اقوام متحدہ نے ان کا کوئی ساتھ نہیں دیا۔
یہ صدر بننے کے بعد اقوام متحدہ میں ٹرمپ کا پہلا خطاب تھا۔ مقررہ 15 منٹ کی بجائے انہوں نے تقریباً ایک گھنٹے تک خطاب کیا، جس میں نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ کئی ممالک کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔
واضح رہے کہ ٹرمپ حکومت نے اقوام متحدہ کو دی جانے والی تقریباً 1 ارب ڈالر کی فنڈنگ روک لی ہے، جس کے نتیجے میں ادارے کو اپنے اسٹاف میں کمی کرنی پڑی۔
امریکی صدر نے اپنے خطاب میں یورپی ممالک کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو یوکرین جنگ کے دوران بھی روسی تیل خرید رہے ہیں۔ انہوں نے اسے ’’غیر ذمہ دارانہ‘‘ عمل قرار دیا۔
ساتھ ہی ٹرمپ نے اپنی ٹیرف (محصولات) پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے اسے ’’قومی دفاع کا ایک ضروری ذریعہ‘‘ قرار دیا۔
اگرچہ ٹرمپ کا اندازِ خطاب حسبِ معمول تلخ، طویل اور بے ربط تھا، جس میں وہ اکثر اپنے اسکرپٹ سے ہٹ کر گفتگو کرتے رہے، لیکن انہوں نے اختتام پر ایک نسبتاً نرم اور مثبت لہجہ اپنایا۔
انہوں نے کہا کہ’’اگر آپ دوبارہ عظیم بننا چاہتے ہیں، چاہے آپ کا تعلق شمال، جنوب، مشرق یا مغرب سے ہو، اس خوبصورت ہال میں موجود ہر رہنما ایک عظیم ثقافت، شاندار تاریخ اور فخر والی وراثت کا نمائندہ ہے، جو ہر قوم کو دنیا کی دیگر قوموں سے ممتاز بناتی ہے۔‘‘
ٹرمپ نے مزید کہا ’’آئیے ہم سب مل کر ایک روشن اور خوبصورت دنیا بنائیں، ایک ایسی دنیا جو ہم سب کی ہو، جہاں امن ہو اور جو پہلے سے زیادہ خوشحال، بہتر اور خوبصورت ہو۔ یہ ممکن ہے... اور یہ ہو کر رہے گا۔"