• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
21جون کوبے نظیربھٹوکی یوم پیدائش کادن ہے۔ بینظیربھٹوکی زندگی میں یہ دن منایاجاتاتھااوربے نظیربھٹوکی شہادت کے بعد تو یہ دن مزیدجوش وخروش سے منایاگیا۔
راجپوت گھرانے میں پیداہونے والی بے نظیربھٹواپنی ذات میں اپنے قبیلے کی تمام صفات رکھتی تھیں۔بھٹوخاندان امن پسندتھامگراپنی ملکیت اورغیرت کے خلاف ذراسی بات بھی برداشت نہیں کرتے۔کراچی کے کانونٹ اسکول جیس اینڈمیری،مری کانونٹ اسکول،ہارورڈیونیورسٹی اور آکسفورڈیونیورسٹی میں طالب علمی کاسفرکرتے ہوئے جون 1977ء میں پاکستان واپس آئیں اوراپنے والد ذوالفقار علی بھٹوکی سیاسی تربیت میں چلی گئیں۔شملہ معاہدے کے وقت توبے نظیربھٹوبین الاقوامی منظرپرپہلے ہی آچکی تھیں جبکہ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاکے بعدسیاست اور جمہوری جدوجہدکی باقاعدہ ذمہ داری بھی ان پر آگئی۔ بعدازاں ذوالفقارعلی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو بینظیر بھٹو اور ان کی والدہ کونظربندکردیاگیا۔نظربندی اورجیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد وہ باہرچلی گئیں اور 10اپریل 1986ء کو لاہور واپس آئیں توان کاتاریخی استقبال ہوا۔ بے نظیربھٹوکی پاکستان واپسی کاقصہ اس ملک کی تاریخ کا اہم واقعہ ہے۔لاہورکے ہوائی اڈے سے لے کر مینار پاکستان تک پہنچنے میں دس گھنٹے لگے۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس سے بڑا جلسہ عام آج تک منعقد نہیں ہوسکا۔ دسمبر1987ء میں آصف علی زرداری کے ساتھ شادی ہوئی۔ تین بچے پیداہوئے۔1988ء میں بےنظیر بھٹو دنیاکی پہلی مسلمان خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ 6اگست1990ء کوبے نظیرحکومت ختم کردی گئی۔ بےنظیربھٹو نے نئی حکومت کے خلاف ڈٹ کر اپوزیشن کارول ادا کیا۔ 1993ء میں پھرالیکشن ہوئے تو بےنظیر بھٹو دوسری مرتبہ ملک کی وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ بےنظیر بھٹو نے قوم کے سامنے آئینی اصلاحات،صحت،تعلیم،تربیت اور بے روزگاری کے خاتمے اورپاکستان کے وقارکے ساتھ21ویں صدی میں داخل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ نیو سوشل کنٹریکٹ کی بات کی،اختیاراوراقتدارکونچلی سطح پرمنتقل کرنے کااعلان کیا۔
بے نظیربھٹو نے پاکستان کی قومی سیاست ہی نہیں ایشیائی اقوام،تیسری دنیا،عالم نسواں بلکہ عام اسلام میں بھی اپنے آپ کوبے نظیرثابت کرکے دکھایا۔بے نظیربھٹونے یہ بھی ثابت کیاکہ دانش،ذہانت،جرات،ہمت اوربہادری کاکوئی متبادل نہیں۔انہوں نے اپنے والد شہید بھٹو اور بھائیوں کی شہادت سے جرأت اورہمت کاسبق سیکھا اور ان کی راہ پرچلتے ہوئے ملک وملت کی تعمیرترقی کیلئے باقی ماندہ سفر مکمل کئے اوران راہوں میں حائل قیدوبند کی آزمائشوں، جیلوں کی سلاخوں، لاٹھیوں کی دیواروں، گولیوں کی باڑوں، جلاوطنیوں کے اندھیرے، مقدمات کے جھملیوں، فتوئوں کے انبار، بے بنیادالزامات کے طوماروں اور ڈس انفارمیشن کی یلغاروں کو بہادری اور جرأت مندی کے ساتھ عبورکیا۔پاکستان پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن کی حیثیت میں پارٹی کومضبوط کیا۔پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمرجنرل ضیاء الحق کے ظالمانہ قوانین اورغیرانسانی،ہتھکنڈوں کاجرأت اور بہادری کے ساتھ مقابلہ کرکے تاریخی مثال قائم کی اور بے نظیربھٹوکانام جبرکے خلاف ناقابل شکست علامت کے طوپرمشہورہوا۔
بے نظیربھٹونے جنرل ضیاء الحق اورجنرل مشرف کے دورمیں جلاوطنی کاسامناکیا۔جلاوطنی کے عرصہ میں تقریباَ ہر کارکن کے ساتھ رابطہ رکھا۔پارٹی لیڈروں کومختلف ذمہ داری دیکرپارٹی کوفعال اورFighterکے طورپرزندہ رکھا۔ پیپلزپارٹی کے مختلف ونگ بنائے جن میں خاص طور پر تمام بڑے بڑے ڈیویژنل مقامات پررابطہ کمیٹیاں، امور خارجہ کی کمیٹی، میڈیا کمیٹی، اوورسیزکمیٹی،انسانی حقوق کی کمیٹی،الیکشن کمیٹی اوردوسری کمیٹیاں شامل ہیں۔ای میل کے ذریعے ہزاروں کارکنوں کی تجاویزسننااورفیصلے کرنایہ صرف اورصرف بے نظیربھٹوکاخاصہ تھا۔27دسمبر2007ء کو ان کی شہادت کے بعدپی پی پی کی قیادت آصف علی زرداری کے سپردہوگئی جس نے 2008ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اورپانچ سال حکومت مکمل کی۔آصف علی زرداری پانچ سال صدرجبکہ اس عرصہ میں یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویزاشرف وزیراعظم رہے۔ پارٹی قیادت نے اقتدارکوقائم رکھنے کیلئے تمام حربے اختیار کئے۔ کبھی میاں نواز شریف کے ساتھ اتحاد کیا تو کبھی چوہدری شجاعت حسین کوحکومت میں شامل کیا۔ایم کیوایم کو حکومت میں شامل کرنے اورحکومت سے نکلنے کے بلی اور چوہے کا چکر پورے پانچ سال چلتا رہا۔ پیپلزپارٹی کا اقتدار رشتہ داروں اوردوستوں میں تقسیم کردیاگیا۔ایک قومی سیاسی پارٹی سیاسی لوگوں کی بجائے ذاتی لوگوں کی پارٹی بن کررہ گئی۔کسی کوپارٹی کے زندہ رہنے سے غرض نہ رہی۔ اقتدارکوقائم رکھنے کی کوشش میں پارٹی سکڑتی گئی۔ سندھ میں پارٹی چلتی رہی لیکن پنجاب اورخیبرپختونخوا میں پارٹی کانام لینامشکل گیا۔پارٹی قیادت کوکارکنوں کوحوصلہ دینے کابھی وقت نہ ملا۔پنجاب سندھ اورخیبرپختونخوا سے ایک الیکشن لڑنے والی بے نظیربھٹوکی پارٹی2013ء کے الیکشن میں نہ ہونے کے برابر سیٹیں حاصل کرسکی۔ پارٹی کے متبادل کے طورپرایک دوسری پارٹی وجودمیں آگئی سیاست میں Gapقائم رہنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت کی غلط حکمت عملی کی بدولت اصل پوزیشن کا کردار عمران خان کو مل گیا۔ پیپلزپارٹی ایک Homeopathicپارٹی بن کررہ گئی۔ ’’میاں نواز شریف قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں ‘‘ کا نعرہ بلند کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیابے نظیربھٹونے اس دن کیلئے پارٹی کو اپناخون دیاتھا۔2008کے بعدہرآنے والادن بےنظیر بھٹوکی روح کوتڑپارہاہوگا۔مختلف اداروں، سڑکوں، شہروں، ایئرپورٹ اوراسکیموں کانام بے نظیربھٹورکھ کرخراج عقیدت نہیں پیش کیاجاسکتابلکہ سوچ اورفلسفے کوآگے بڑھاکربے نظیربھٹوکوزندہ رکھاجاسکتاہے۔
بے نظیربھٹونے اپنے والدکے افکار کو زندہ رکھ کراوران پرعمل کرکے ذوالفقار علی بھٹوکوبڑالیڈربنادیا۔میں یقین سے کہتاہوں کہ شہید بھٹو کی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ ان کو بہت بڑالیڈربنانے میں بے نظیربھٹوکاہاتھ ہے۔لیکن صدافسوس کہ بے نظیربھٹو کی سوچ کو آگے لانے کی بجائے مفادات، مصلحت، سودے بازی، کرپشن، رشتے داروں اور دوستوں کو نوازنے ، کارکنوں کویکسرنظراندازکرنے،پارٹی کوتباہ کرنے کاسمجھوتہ کرنے اورقومی پارٹی کوایک صوبہ تک محدود رکھ کربے نظیرکی روح کو تڑپا دیاگیا۔ کون بےنظیربھٹو کی سوچ کاوارث بنے گا؟غریبوں کی حالت زارکاکون خیال کرے گا؟چاروں صوبوں کوکون متحدکرے گا؟ دہشت گردی کا کون مقابلہ کرے گا؟ اور کون اس ملک کو ترقی کی منازل کی طرف لے جائے گا؟ میاں نواز شریف، میاں شہبازشریف،عمران خان یاپیپلزپارٹی کی قیادت؟ بے نظیربھٹوکی سالگرہ کے دن پیپلزپارٹی کی حالت زاردیکھ کردکھ محسوس ہوتاہے کہ بھٹواوربے نظیربھٹوکی پارٹی کس طرح گم ہوتی جارہی ہے۔
ملک میں ہمیشہLeft of the Centerپارٹی کی ضرورت رہی ہے۔غریبوں اورکسانوں کی بات کرنے والی،مزدوروں اورنچلے طبقے کی نمائندگی کرنے والی،چاروں صوبوں،کشمیراورگلگت بلتستان میں وجودرکھنے والی پارٹی غائب ہورہی ہے۔یہ نقصان اب پیپلزپارٹی کانہیں بلکہ قومی نقصان ہے۔اس نقصان پربہت تکلیف ہے لیکن ہم آج بھی ذوالفقارعلی بھٹوکی طرح بے نظیربھٹوکی سوچ کوآگے لے جاکرزندہ اورتابندہ رکھ سکتے ہیں۔ پارٹی تعصب سے بالاترہوکرکیونکہ بے نظیر ایک Visionaryاور Legendلیڈر تھیں۔ انقلاب برپا کرنے والے لیڈروں کوقومیں بھلایا نہیں کرتیں۔بے نظیربھٹونے اقتدارکیلئے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔اصولی سیاست کی اورجمہوریت کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دی۔جنرل مشرف نے مارشل لالگاکراپنے اقتدارکوطول دینے کی کوشش کی تومیاں نوازشریف کے ساتھ مل کرARDقائم کردی۔Charter of Democracyپردستخط کرکے دنیاکوحیران کردیا۔
بے نظیربھٹونے 1988میں18ماہ اور1993میں تین سال سے زائدحکومت کی دونوں حکومتیں اپنی مدت پوری نہیں کرسکیں۔لیکن دونوں مرتبہ پانچ سالہ مدت پوری کرنے کیلئے اصولوں کی قربانی نہیں دی۔ کارکنوں کونظراندازنہیں کیااورمخالفین کوصرف اور صرف اقتدارکے وجودکوقائم رکھنے کیلئے گلے نہیں لگایا۔ پانچ سالہ مدت تو2002ء کی اسمبلی نے بھی پوری کی تھی لیکن کیا اس کو کریڈٹ دیناچاہئے یا اس بات کو کریڈٹ دیناچاہئے کہ جمہوریت اوراصولوں کی خاطراقتدارقربان کردیا۔ دنیامیں قربانی دینے والاہی زندہ رہتاہے۔ بےنظیربھٹو اقتدارکوقربان کرکے،جلاوطنی کی زندگی گزار کر، نظربندی اورجیل برداشت کرکے اورآخرمیں اپنی زندگی کی قربانی دیکرہمیشہ کیلئے زندہ و جاویدہوگئیں۔قربانی دئیے بغیرلوگوں کے دلوں پرراج نہیں کیاجاسکتا۔بے نظیربھٹوکایہی سبق ہے کہ جمہوریت کوde-railنہ ہونے دیا جائے۔اصولوں پرکوئی سمجھوتہ نہ کیاجائے۔آئینی اداروںکو مضبوط بنایا جائے، غریبوں کی حالت زار بہتر بنائی جائے اورملک میں دہشت گردی کاخاتمہ ہو۔بے نظیر بھٹو کی سوچ کوآگے لے جاکربے نظیرکوزندہ رکھنا چاہئے۔ پیپلزپارٹی کی مقبولیت کم ہونے یاسکڑنے سے بے نظیر بھٹو کی سوچ ختم نہیں ہوسکتی۔بے نظیربھٹوکل بھی زندہ تھی آج بھی زندہ ہے۔اسکی سوچ کوکوئی بھی آگے بڑھاسکتاہے۔
تازہ ترین