• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نئی دہلی خطے میں تیزی سے اپنی سفارتی حکمتِ عملی بدل رہا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ بھارت اب ان ممالک سے تعلقات بڑھانے پر زور دے رہا ہے جو روایتی طور پر پاکستان کے قریبی اتحادی سمجھے جاتے ہیں، یعنی چین اور سعودی عرب۔ اس پیش رفت نے خطے میں نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ آیا یہ بھارت کی صرف معاشی ضرورت ہے یا پھر پاکستان کو سفارتی دباؤ میں لانے کی حکمتِ عملی۔

بھارت دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشت ہے اور اسے توانائی و سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے۔ سعودی عرب بھارت کو خام تیل فراہم کرنے والا بڑا ملک ہے جبکہ خلیجی ریاستوں میں لاکھوں بھارتی مزدور موجود ہیں، جو ترسیلاتِ زر کے ذریعے بھارتی معیشت میں اربوں ڈالر بھیجتے ہیں۔ چین کے ساتھ بھی بھارت کا تجارتی تعلق وسیع ہے، اگرچہ سرحدی کشیدگی اپنی جگہ موجود ہے۔ ماہرین کے مطابق بھارت نہیں چاہتا کہ چین اور سعودی عرب مکمل طور پر پاکستان کے پلڑے میں ہوں۔ اس لیے وہ ان ممالک کے ساتھ اقتصادی اور سفارتی تعلقات بڑھا کر کم از کم ایک متوازن رشتہ قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ نئی دہلی کی نظر میں یہ حکمتِ عملی پاکستان کو سفارتی سطح پر تنہا کرنے کا ہتھیار بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔

پاکستان کیلئے یہ صورتحال دہری ہے۔ ایک طرف چین اور سعودی عرب کے ساتھ اس کے دیرینہ تعلقات برقرار ہیں، دوسری طرف ان ہی ممالک کا بھارت کے ساتھ تعلق بڑھانا اسلام آباد کیلئے ایک سفارتی چیلنج ہے۔ خاص طور پر کشمیر جیسے حساس مسئلے پر برادر ملک کا نرم لہجہ نئی دہلی کیلئے فائدہ مند سمجھا جارہا تھا اور بھارت اسی وجہ سے خوش فہمی میں مبتلا ہو گیا تھا کہ اب سعودی عرب پاکستان سے زیادہ بھارت کے ساتھ تعلقات بڑھائے گا۔ لیکن پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ نے بھارت کی امیدوں پر پانی پھیر دیا ہے اور پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو خراب کرنے کی اس کی تمام کوششیں رائیگاں جاتی نظر آرہی ہیں۔ بھارت کیلئے پاک سعودی دفاعی معاہدہ یقیناً ایک تشویش ناک پیشرفت ہے۔ بھارت اس سے خوفزدہ بھی نظر آرہا ہے۔ اس سے بھارت سوچنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ آخر کون سی پالیسی اختیار کی جائے کہ پاکستان اور سعودیہ کے تعلقات میں دراڑ ڈالی جاسکے۔ سعودی عرب مشرقِ وسطیٰ کا سب سے طاقتور ملک ہے اور پاکستان کے ساتھ اس کے دفاعی تعلقات بھارت کیلئے یہ پیغام ہیں کہ پاکستان اکیلا نہیں ہے۔ اس سے بھارت کے خطے میں اثر و رسوخ پر دباؤ پڑ سکتا ہے۔

بھارت گزشتہ ایک دہائی سے سعودی عرب، امارات اور خلیجی ممالک کے ساتھ مضبوط معاشی و دفاعی تعلقات قائم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ لیکن سعودی عرب کا پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون اور معاہدہ بھارت کی سفارت کاری کیلئے بھی ایک چیلنج بن گیا ہے۔ بھارت کی کوشش ہے کہ ہتھیاروں کی دوڑ میں وہ سب سے آگے رہے تاکہ پاکستان پر دباو بڑھایا جاسکے لیکن سعودی دفاعی تعاون پاکستان کو ہتھیاروں، ٹریننگ اور فوجی امداد میں سہولت دے سکتا ہے، جس سے بھارت کیلئے پاکستان ایک بالواسطہ خطرہ بن گیا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ بھارت سعودی عرب سے تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ دفاعی معاہدے کی وجہ سے سیاسی توازن پاکستان کے حق میں مزید جھک رہا ہے اس سے بھارت کی توانائی سیکورٹی پر بھی خدشات بڑھ سکتے ہیں۔ ان حالات میں بھارت پاکستان کے ساتھ تصادم کی پالیسی اختیار کرنے کی کوششوں کو بھی بریک لگائے گا جب کہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے معاشی و سفارتی روابط مزید بڑھانے کی کوشش کرے گا۔ 

اب بات کرتے ہیں چین کی۔ پاکستان اور چین کی دوستی کو آہنی رشتہ کہا جاتا ہے۔ یہ رشتہ وقت کے ہر امتحان میں مضبوط تر ہوا ہے چاہے وہ اقتصادی راہداری (CPEC) کی شکل میں ہو دفاعی تعاون میں یا پھر اقوامِ متحدہ کے فورمز پر ایک دوسرے کے مؤقف کی حمایت کے ذریعے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بھارت جو کل تک بیجنگ کو سب سے بڑا حریف قرار دیتا تھا، آج اسی کے دروازے پر دستک کیوں دے رہا ہے؟

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ نئی دہلی کی اصل پریشانی پاکستان اور چین کی قریبی شراکت داری ہے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ اگر بیجنگ پوری طرح اسلام آباد کے ساتھ کھڑا رہا تو خطے میں دہلی کی حیثیت کمزور ہی رہے گی۔

اسی لیے بھارت اب چین کے ساتھ تعلقات میں نرمی لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کا یہ کھیل صرف پاک چین دوستی کو توڑنے تک محدود نہیں۔ اس کے پیچھے گہرے معاشی اور عالمی عوامل بھی کارفرما ہیں۔ چین آج بھی بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ سرحدی جھڑپوں اور سیاسی کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کے درمیان اربوں ڈالر کی تجارت یہ بتاتی ہے کہ دہلی کیلئے بیجنگ کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔علاقائی سیاست میں بھی بھارت کی حکمتِ عملی واضح ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ چین اسلام آباد کی ہر بات پر آنکھیں بند کر کے ہاں نہ کرے۔ اس لئے اس کی کوشش ہے کہ چین کے ساتھ کشیدگی کی بجائے نرم رویہ اختیار کرے کیونکہ اسے اندازہ ہے کہ اگر بیجنگ کے ساتھ دہلی کے تعلقات میں ذرا سی بھی نرمی آئے تو اسلام آباد کیلئے یہ ایک اضافی دباؤ بن سکتا ہے۔

مختصر یہ کہ بھارت کا چین کے قریب جانا بظاہر دوستی ہے مگر دراصل یہ ایک چال ہے۔ ایک ایسا کھیل جس میں دہلی چاہتا ہے کہ نہ صرف اپنے معاشی اور عالمی مفادات حاصل کرے بلکہ پاکستان اور چین کی آہنی دیوار میں زیادہ نہیں تو کم از کم ایک بال برابر ہی دراڑ ڈال سکے لیکن یہاں بھی بھارت کو منہ کی کھانی پڑسکتی ہے۔ پاکستان کی سفارت کاری نے بھارت کو سعودی عرب سے تعلقات بڑھانے اور پاک سعودی تعلقات میں رخنہ ڈالنے کی کوششوں کو تو مٹی میں ملا دیا اب جلد ہی چین کے حوالے سے بھی بھارت کو سرپرائز مل سکتا ہے۔ 

تازہ ترین