• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں جہاں امریکہ جیسے دولت مند ممالک بھی امن اور تجارت کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کیلئے مضبوط اور مستحکم معیشت ہی انکی حقیقی دفاعی قوت اور وجود کی ضمانت ہے۔ ڈھائی تین سال پہلے پاکستان معاشی اعتبار سے دیوالیہ ہونے والا تھا اور عالمی برادری میں اسکی ساکھ بری طرح مجروح ہوچکی تھی مگر یہ اللّٰہ تعالیٰ کا کرم ہی تھا کہ دوست ممالک کی عملی اعانت، آئی ایم ایف سمیت بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا اربوں ڈالر کے قرضوں، داخلی ادارہ جاتی اصلاحات اور بعض دوسرے مثبت اقدامات کی بدولت کنگال ہونے کے خطرے سے باہر نکل آیا مگر ترقی کے حقیقی مدارج میں داخل ہونے کیلئے اسے ابھی اور بہت کچھ کرنا ہے۔ بدقسمتی سےسیاسی عدم استحکام، دشمن قوتوں کی سازشیں، بڑھتی ہوئی دہشت گردی، ماحولیاتی تبدیلیاں اور غیر متوقع قدرتی آفات معاشی عمل کے فروغ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔

قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ، کرپشن، بدنظمی اور بیڈ گورننس، نفسانفسی کے منفی رجحانات نے صورت حال کو مزید بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایسے میں میثاق جمہوریت کی طرز پر میثاق معیشت کی تجویز کامیابیوں کی راہیں کھول سکتی تھی مگر سیاسی مصلحتوں اور گروہی مفادات کی خاطر اسے درخوراعتنا نہیں سمجھا گیا۔ ناقص اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان میں اقتصادی ترقی کی شرح نمو ساڑھے 6فیصد سے گرکر ایک فیصد سے بھی نیچے چلی گئی تھی۔ مختلف اقدامات کی بدولت اب یہ شرح دو فیصد کے قریب بتائی جارہی ہے۔ جو 25کروڑ نفوس کی آبادی والے ملک کیلئے بہت کم ہے۔ برآمدات بڑھانے کیلئے کئے جانیوالے متعدد اقدامات کے باوجود تجارتی خسارہ اب بھی حد اعتدال سے زیادہ ہے۔ ملکی صنعتیں جو غیر ملکی زرمبادلہ کمانے کا بڑا ذریعہ تھیں تحفظات کا شکار اور مراعات کی طلبگار ہیں۔

ملک میں روزگار کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے ہنرمند افرادی قوت، خاص طور پر نوجوان قسمت آزمانے کیلئے بیرون ملک جارہے ہیں۔ حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کو ترسیلات زر کی ترغیب دینے کیلئے خصوصی پیکیج کا اعلان کر رکھا ہے، جس کے حوصلہ افزاء نتائج برآمد ہوئے ہیں اور غیرملکی ترسیلات زر 38ارب ڈالر کی تاریخی بلندی پر پہنچ چکی ہیں جن میں اضافے کے امکانات بھی روشن ہیں لیکن بینکوں اور ترسیلات کی منتقلی کرنیوالے آپریٹرز نے فی ٹرانزیکشن فیس ایک روپے سے بڑھا کر ساڑھے چار روپے کردی ہے، جس سے خود تو انہوں نے 130ارب روپے کما لئے مگر جن لوگوں کی خون پسینے کی کمائی انہوں نے ہتھیائی انکے مفاد کا خیال نہ رکھا۔ یہ معاملہ گزشتہ روز سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں پیش ہوا، جس پر سب حیران رہ گئے۔ اسکی وجہ یہ بتائی گئی کہ حکومت نے بیرون ملک پاکستانیوں کیلئے ایک ترغیبی پیکیج جاری کیا تھا، جس سے ترسیلات زر میں اضافہ ہونے لگا۔ ساتھ ہی حکومت نے ٹرانزیکشن فیس اوسطاً 20سعودی ریال سے بڑ ھا کر 35ریال کردی۔ اس سے ترسیلات زر میں تو اضافہ ہوا مگر پیسے بھیجنے والوں کو ترسیل کی زیادہ فیس دینا پڑی جو ان کی بددلی کا سبب بنی۔ سینیٹ کی کمیٹی کے اجلاس میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے بریفنگ دیتے ہوئے بینکوں اور منی ٹرانسفر آپریٹرز کا دفاع کیا اور بتایا کہ رقوم کی منتقلی کی اصل لاگت 8.2ڈالر فی ٹرانزیکشن ہے۔ دوسرے ملکوں سے اسکا موازنہ کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ بھارت میں ٹرانزیکشن فیس 10.2ڈالر اور بنگلہ دیش میں 13.9ڈالر ہے، پاکستان میں انکے مقابلے میں یہ فیس کم ہے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اسٹیٹ بینک نے فی ٹرانزیکشن فیس کم کرکے 20ریال کردی ہے۔ کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈی والا نے تجویز دی کہ اسٹیٹ بینک کو یہ اضافہ واپس لے کر دوبارہ ایک روپے کی سطح پر بحال کر دینی چاہئے۔

ملکی معیشت جس بحران کا شکار ہے اس پر قابو پانے کیلئے یہ ایک معقول تجویز ہے لیکن اسٹیٹ بینک کے افسر کا کہنا تھا حکومت رواں مالی سال کے دوران ترسیلات زر کے ترغیبی پیکیج پر 80سے 100ارب روپے خرچ کریگی۔ اسکا بھی خیال رکھنا چاہئے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گزشتہ سال حکومت نے ترسیلات زر میں کٹوتیوں پر سبسڈی کیلئے ترغیبی پیکیج کے تحت124ارب روپے ادا کیے تھے۔ اب پیکیج کا سائز کم کرنے کیلئے حکومت نے کم از کم 200ڈالر کی منتقلی پر 20سعودی ریال فیس مقرر کی ہے۔

انہوں نے وضاحت کی کہ روپے کی قدر میں کمی آپریٹرز کے چارجز میں اضافے کی بنیادی وجہ ہے۔ سینیٹر واوڈا نے اس موقع پر انکشاف کیاکہ آپریٹروں نے اپنی فیس بڑھانےکیلئے منتقل شدہ رقوم کو حصوں میں تقسیم کردیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں۔ بیرونی ملکوں سے ترسیلات زر، قومی خزانے میں جمع ہونیوالے زرمبادلہ کا اصل ذریعہ ہیں۔ قومی معیشت کی بحالی کیلئے حکومت نے ترغیبی پیکیج اسی پس منظر میں دیا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے ہونیوالے نقصانات 2022ء کے سیلاب سے بھی زیادہ ہیں جن کا تخمینہ30ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ اگر صورتحال کا وسیع تناظر میں جائزہ لیا جائے تو اسٹیٹ بینک کا موقف درست نظر آتا ہے مگر متاثرین میں بیرون ملک پاکستانیوں کے خاندان بھی ہیں، اسلئے انکا خیال رکھنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔

تازہ ترین