• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ دنوں ہم بھاٹی چوک کی بات کر رہے تھے۔ بھاٹی چوک میں ایک بہت بڑا گول چکر یعنی راؤنڈ ابائوٹ ہوتا تھا اس زمانے میں ہر راؤنڈ اباؤٹ پر سفید اور کالے رنگ کی پٹیاں ہوا کرتی تھیں اور راؤنڈ اباؤٹ پر گھاس وغیرہ لگی ہوتی تھی جہاں پرآپ کو طرح طرح کے لوگ بیٹھے مل جایا کرتے تھے۔ ان میں مالشی زیادہ تعداد میں بیٹھے ہوتے تھے کچھ ملنگ اور فقیر بھی ہوتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس راؤنڈ اباؤٹ پر رات کو ایک دنیا آباد ہو جاتی تھی دن بھر کے تھکے ہوئے لوگ ان مالشیوں سے مالش کرانے آتے تھے۔ ایسے لوگ بھی آ جاتے تھے جو بیچارے مزدور ہوتے تھے اور ان کے پاس کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا تھا۔نگار سینما سے لیکر اردو بازارچوک تک طوطا فال والے ،سانڈے کا تیل فروخت کرنے والے اور مختلف ادویات فروخت کرنے والے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوتے ہیں ۔اور سامنے ایک حنوط شدہ جانوروں کا میوزیم بھی تھا۔آپ یقین کریں کہ دور سے حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کا مزار مبارک نظر آتا تھا کوئی رش نہیں ہوتا تھا لوگ بڑے پرسکون طریقے سے مزار مبارک پر حاضری دینے جاتے تھے ۔اس چوک پر تین قدیم سینما تھے نگار سینما،پیرا ماؤنٹ اور ملک تھیٹر۔آج صرف ملک تھیٹر رہ گیا ہے۔ دوسرے حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے عرس کے موقع پر تنبو/ قناتیں لگا کر بھی چلتے پھرتے سینما گھر آ جاتے تھے جنہیں منڈوا کہا جاتا تھا۔ یہ منڈوا آج بھی بعض دیہاتوں میں لگائے جاتے ہیں۔ لاہور کے بھاٹی چوک اور حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کےمزارمبارک کے پاس گورنمنٹ اسلامیہ ہائی ا سکول تھا جو کہ بڑا تاریخی اسکول تھا ، جس کو گرا کر مزار اور مسجد کی توسیع کی گئی تھی ۔سنا ہے کہ اب پھر مزار مبارک اور مسجد کی توسیع کر رہے ہیں ۔لاہور میں ایک زمانے میں بے شمار سینما گھر تھے زیادہ تر سینما گھر میکلور ڈروڈ اور ایبٹ روڈ پر تھے ۔کچھ سینما گھر لاہور کے مختلف علاقوں میں تھے لاہور میں سینما دیکھنے کا کلچر 1947ء سے 1980ء تک عروج پر رہا۔ 1974 میں جب وی سی آر کا زمانہ آیا تو فلم بینوں نے سینما گھروں کا رخ کم کر دیا ۔ ایک وقت تھاتہواروں اور ہر اتوار کو سینما گھروں میں چار چار شوز ہوا کرتے تھے۔ قیام پاکستان کے وقت تو لاہور میں صرف دس کے قریب سینما گھر تھے کبھی لاہور میں 70 سے زائدسینما ہاؤس تھے اب تو صرف چند ایک سینما گھر رہ گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہم میٹروپول سینما کے آگے سے گزر رہے تھے اب وہاں سینما نہیں ایک میدان تھا اور پارکنگ ایریا بن چکا ہے ۔اسی طرح گزشتہ برس لاہور کا تاریخی اور قدیم رتن سینما کو بھی گرا دیا گیا وہاں بھی اب پارکنگ ایریا بن چکا ہے۔ رتن سینما کی بیسمنٹ میں بلئیر ڈ کی میزہوا کرتی تھی سوچیں لوگ اس زمانے میں آج سے پچاس /ساٹھ سال پہلے بلئیرڈ کھیلا کرتے تھے جب شہر لاہور میں کہیں بلئیرڈ سوائے جم خانہ کلب کے کہیں نہیں تھی۔ یہاں ایک ٹیلر ماسٹر کی بھی دکان تھی یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ ہم نے لاہور کے تین سینما گھروں کی عمارت میں تین ٹیلر ماسٹروں کی دکانیں بھی دیکھی ہیں۔ ریگل سینما، پلازہ سینما اور رتن سینما اور ان سینما گھروں کے اندر کچھ دیگر دفاتر بھی ہوا کرتے تھے۔صنوبرسینما کی اسکرین کے عین پیچھے ایک بزرگ کا مزار ہے اب اس سینما کو بھی گرا دیا گیا ہے اور وہاں باقاعدہ عرس بھی ہوتا تھا اور ہم نے یہ مزار خود دیکھا بھی ہے صنوبر سینما کے کئی نام بھی رہے ہیں پہلے اس کا نام ایمپائر تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ اس سینما میں قائد اعظم نے کسی جلسے یا میٹنگ سے خطاب بھی کیا تھا ۔لاہور میں کبھی یہ سینما رہے ہیں اب ان میں سے صرف چند ایک رہ گئے ہیں۔ باقی سینما گھروں کو گرا کر پلازے، پارکنگ ایریا اور دیگر تعمیرات کر دی گئی ہیں ۔لاہور میں فلم انڈسٹری کے عروج کے وقت یہ سینما گھر رہے ہیں ۔اوریگا اور الفلاح لاہور کے سب سے خوبصورت سینماتھے اور یہاں پر ایلیٹ کلاس فلمیں دیکھنے آیا کرتی تھی۔ اوریگا سینما ڈاکٹر محمود ایاز کے قریبی عزیز و اقارب کا تھا۔ اس کے علاوہ لاہور میں ناز اور نگینہ ایک احاطےمیں تاج اور کراؤن بھی ایک احاطے میں تھے۔ اس طرح شمع اور شیش محل بھی ایک ہی احاطے میں تھے ۔یہ چاروں سینمابھی بڑے قدیم اور اچھے تھے ۔ناز سینما میں پاکستان کی پہلی رنگین فلم نائلہ لگی تھی اور ہمیں اپنی فیملی کے ساتھ سینما میں فلم دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس سینما کے اندر ہی کسی سکھ کی ایک یاد گار بھی موجود ہے ۔ناز اور نگینہ سینما کے ساتھ ایک قدیم چرچ آج بھی موجود ہے۔ لاہور میں نغمہ، گلستان ،میٹروپول، محفل، مبارک، ریگل، شبستان، کیپٹل، اوڈین، ایمپائر ،ستارہ ،وینس، گلشن، الحمرا،اعوان سینما، فردوس، گلیکسی، نیا گرا ،گرین کوہ نور، انگولا، سنگیت ،ساحل، پرنس، نیلم ،کپری،پی اے ایف ،سینما گلوب سینما (اس کا پہلا نام ویسٹ اینڈ سینما اور بعد میں افشاں سینما ہو گیا اور اب وہاں مال آف لاہور ہے) سوزو واٹر گیریزن سینما لاہور میں ایک سینما گھر ا سکول کے اندر ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ پہلے وہ اسکول کا آڈیٹوریم تھا اور اب وہ سینما بن چکا ہے ۔سینما اور ا سکول ایک ہی احاطے میں واقع ہیں۔ملکہ ترنم نور جہاں کا بھی ایک سینما تھا۔ اس کے علاوہ الممتاز سینما، ایجنٹ، ائیر روز، پاکستان ٹاکیز (لاہور کا پہلا سینما جس کا پہلا نام عزیز تھیٹر بھی رہا )ترنم، سٹی سینما ،ریوائی، پربھات، نشاط، کیپٹل،رٹز، قیصر، پلازہ، لاہور میں ریگل سینما میں آپ کبھی بغیر سوٹ کے فلم دیکھنے نہیں آ سکتے تھے اور ریگل سینما میں صرف انگریزی فلمیں لگا کرتی تھیں اور یہ واحد سینما تھا جس کی گیلری نہیں تھی اور ایک ہزار افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ ہم نے اپنے کالج کے زمانے میں یہاں پر کئی فلمیں دیکھی ہیں اس کی سیٹیں لال رنگ کی ہوتی تھیں۔ لاہور کے سینما گھر اور تانگہ دونوں کا ایک ساتھ زوال ہوا۔ ایک طرف سینما گھر ختم ہوئے تو دوسری طرف تانگہ کلچر بھی ختم ہوا۔(جاری ہے)

تازہ ترین