• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان پون صدی سے سیاسی ہچکولے کھا رہا ہے کبھی پاکستان مارشل لا کی گود میں دھکیل دیاجاتا ہے کبھی جمہوریت کی ٹھنڈی ہوائوں کے جھونکے آنا شروع ہوتے ہیں تو جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی جاتی ہے اور کبھی ہائبرڈ نظام کا راج آجاتا ہے۔ بس یو ں کہیے کہ پاکستان تجربات کی آماجگاہ بنا ہوا ہےاب تک کوئی نظام پاکستان کو سیاسی استحکام نہیں دے سکا ۔آئے روز پاکستان کو سیاسی بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کوئی ملاح نہیں جو پاکستان کی ہچکولے کھاتی کشتی کو منزل مقصود تک پہنچا دے ۔ ملک کو ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ایک میز کے گرد جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔ 27ستمبر2025ء خاموشی سے گزر گیا ہے اس روز پاکستان کی سیاست کے ’’بے تاج بادشاہ ‘‘ نوابزادہ نصر اللہ خان کی22ویں برسی تھی۔ کوئی تقریب ہوئی اور نہ ہی کوئی قابل ذکر سیمینار منعقد ہوا جس میں نوابزادہ نصر اللہ خان کوان کی جمہوریت پسندی پر خراج عقیدت پیش کیا جاتا۔ میں نصف صدی سے زائد پیشہ صحافت سے وابستہ ہوں اس عرصہ کے دوران مجھے نوابزادہ نصر اللہ خان کی قربت حاصل رہی ہےنیشنل پریس کلب میں انہوں نے بارہا میری دعوت پر ’’میٹ دی پریس پرو گرام ‘‘ میں شرکت کی ۔ نوابزادہ نصر اللہ خان میں کم ازکم نکات پر سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت تھی۔ میرا 1970ء سے نامور صحافی آغا شورش کا شمیریؒاور نوابزادہ نصر اللہ خان سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا جو وقت کے ساتھ ساتھ ارادت میں تبدیل ہو گیا ،جب بھی وہ دونوں اسلام آباد کا رخ کرتے تو ان سے پہروں ملکی سیاست پر تبادلہ خیال کرنے کا موقع ملتا۔ پاکستان میں جب بھی جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے تو نوابزاد ہ نصراللہ خان کی بہت یاد آتی ہے۔ نوابزادہ نصر اللہ خان کو ’’بابائے جمہوریت‘‘ کا خطاب یوں ہی نہیں دیا گیا وہ ہمیشہ غیرجمہوری قوتوں کے خلاف شمشیر برہنہ ہوتے تھے اور جمہوری قوتوں کوایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کا کم وبیش نصف صدی تک ملکی سیاست میں اہم کر داررہا ، انہیں جہاں غیر جمہوری حکومتیں گرانے میں ید طولیٰ حاصل تھا وہاں وہ عمر بھر پارلیمانی جمہوری نظام کے استحکام کیلئے کوشاں رہے ۔نوابزادہ نصر اللہ خان نے تحریک خلافت میں ایک بار کیا ترکی ٹوپی کیا پہنی پھر ترکی ٹوپی ان کی شناخت بن گئی وہ روایتی حقہ پینے کے عادی تھے جو انکی زندگی کا جزو لاینفک بن گیا انکی وفات کے23سال بعد چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے ان کے ’’حقہ اور ٹوپی ‘‘ کو پارلیمنٹ ہائوس میں آئین 1973ء کی راہدار ی میں رکھ دیا۔بابائے جمہوریت نوابزادہ نصر اللہ خان کی لاہور میں 32نکلسن روڈ پر رہائش گاہ ان کی زندگی میں آباد رہی لیکن پھر تجارتی مرکز کی بھینٹ چڑھ گئی۔ نواب زادہ نصر اللہ نے اپنی زندگی میں اپنا’’ سیاسی ڈیرہ‘‘ تبدیل نہیں کیا اس ڈیرے پر آصف علی زرداری ، بے نظیر بھٹو ، نواب اکبر بگٹی، مولانا فضل الرحمن سمیت ملک کے بڑے بڑے لیڈروں کی آمد و رفت لگی رہتی تھی۔ کاش نوابزادہ نصر اللہ کی رہائش گا ہ قومی ورثہ کا ادارہ اپنی تحویل میں لے لیتا تاکہ اس تاریخی عمارت کی مناسب طریقے سے حفاظت کی جا سکتی ۔ مرحوم نوابزادہ نصر اللہ خان عمر کےبارے میں کئے جانیوالے سوال پر قدرے برہمی کا اظہار کرتے تھے ان کی 87سال کی عمر میں وفات ہوئی انہوں نے اپنی زندگی کی آخری سانس اسلام آباد کے ایک نجی ہسپتال میں لی ،جب رات کے پچھلے پہر ان کا جسد خاکی خان گڑھ کیلئے روانہ ہوا تو میں بھی اشکبار آنکھوں سے اسے رخصت کرنے والوں میں بھی شامل تھا۔دورانِ علالت بھی وہ اے آر ڈی کے اجلاس بارے استفسار کرتے رہتے تھے،انہیں خان گڑھ واپس جانے کی بڑی جلدی تھی وہ ہسپتال میں زیر علاج تھے اپنے پولیٹکل سیکریٹری جمشید ملک سےسرائیکی زبان میں کہا ’’سامان بھدو چلوں میں ٹھیک آں‘‘(سامان باندھیں گھر چلتے ہیں میں ٹھیک ہوں )لیکن ا گلے روز ان کا جسد خاکی خان گڑھ کے لئے روانہ ہوا ۔لیفٹیننٹ جنرل (ر) جہانداد خان اب اس دنیا میں نہیںہیں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ ایوب حکومت میں صدارتی انتخابات کے دوران نوابزادہ نصر اللہ خان کو زہر دینے کا پروگرام بنایا گیا توانکی مخالفت کے باعث یہ پروگرام ڈراپ کر دیا گیا میں نے یہ بات نوابزادہ نصر اللہ خان کو انکی زندگی میں بتائی تو انہوں نے مسکرا کر کہا کہ زندگی اور موت اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے اگر انسانوں کے ہاتھ میںہو تو کسی کو جینے نہ دیں ۔نوابزادہ نصر اللہ خان کو ایوب خان ، یحییٰ خان ، ذوالفقار علی بھٹو، ضیا الحق ، بے نظیر بھٹو ، اور نواز شریف کی حکومتوں کیخلاف تحاریک چلانے کا اعزا ز حاصل ہے۔ 70ء کے عشرے میںان کے بارے میں ایک سرکاری اہلکار نے بتایا تھا کہ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نوابزادہ نصر اللہ خان کے اثاثوں کی چھان بین کی تو کرپشن کا کوئی ثبوت نہ ملا بلکہ ان اثاثوں میں کمی دیکھی گئی وہ خاندانی زمین بیچ کر سیاست کرتے تھے سیاست سے کچھ کمایا نہیں بلکہ اسے کچھ دیا ہی۔ آئس کریم نوابزادہ نصر اللہ خان کی کمزوری تھی ایک بار بے نظیر بھٹو نے ان سے ازراہ مذاق کہا کہ ’’ہم تو آپ کی کمزوری تلاش کرتے رہے ہمیں معلوم نہیں تھا کہ آئس کریم آپ کی کمزوری ہے‘‘ ۔ پی این اے کی تحریک کے دوران میں نےبزرگ صحافی سعود ساحر مرحوم کے ہمراہ نوابزادہ نصر اللہ خان کی گاڑی کا ہری پور جیل تک تعاقب کیا اور ان کی مفتی محمود سے ملاقات کی خبر نکالی وہ ذوالفقار علی بھٹو سے مذاکرات کے سلسلے میں مفتی محمود سے مشاورت کیلئے ہری پور جیل گئے تھے ۔آج پاکستان ایک بار پھر ’’ہائبرڈ نظام ‘‘ کے تجربات سے گزر رہا ہے اس نظام کے خلاف تحریک جن ہاتھوں میں ہے ان میں سے کوئی بھی نواب زادہ نصر اللہ خان کا ہم پلہ ہے اور نہ ہی ان جیسی تحریک چلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ایسے حالات میں نوابزادہ نصر اللہ خان کی بہت یاد آتی ہے ۔

تازہ ترین