• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

12 ستمبر کو ممتاز رائٹر فرخ سہیل گوئندی نے سوشل میڈیا میں اسلام آبادکےایک بک اسٹور کے مالک احمد سعید کی ایک پوسٹ شیئر کی جس میں احمد سعید نے لکھا کہ اب وہ بک اسٹور بند کرکے کوئی ریسٹورنٹ کھولنے کے حق میں ہیں کیونکہ ٹیکس کے نام پر تنگ کرکے ان کی دکان سیل کردی گئی ہے۔

تعلیم سے فراغت سے لیکر اب تک جب بھی اسلام آباد آنا جانا ہوتا ہے توکئی نامور بک اسٹوروں پر حاضری لازمی ہوتی ہے اور ان دکانوں سے کئی درجن کتابیں خریدی ہیں۔ اس عرصے میں بڑی تبدیلی دیکھی سپر مارکیٹ میں دو تین اولڈ بکس کی دکانیں تھیں وہ بند ہوئیں۔ ان کی جگہ وہاں فاسٹ فوڈ کی دکانیں کھل گئی ہیں۔

نیشنل بک فاؤنڈیشن کی آبپارہ مارکیٹ اور روالپنڈی والی دکانیں بند کردی گئیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ اس سال کے شروع میں جب بلیو ایریا میں آکسفورڈ یونیورسٹی کی دکان گیا تو معلوم ہوا کہ اسے ختم کر دیا گیا ہے اور اب وہاں کوئی بینک یا ریسٹورنٹ کھل رہا ہے۔ راولپنڈی کمرشل مارکیٹ اور صدر میں بھی موجود کتابوں کے دکاندار اپنا کاروبار سمیٹ رہے ہیں۔ بینک روڈ صدر راولپنڈی میں ہر اتوار کو کتابوں کے کھلے اسٹال لگتے تھے جہاں نایاب اور اہم کتابیں معقول قیمت پر آسانی سے ملتی تھیں۔

اس سال جون کے مہینے میں ہر اتوار کو جب صدر گیا تو دیکھا کہ صرف چند گنے چنے اسٹال رہ گئے ہیں جہاں زیادہ تر موٹیویشنل اسپیکرز کی کتابیں ملتی ہیں۔ فریدی صاحب دو دہائی سے بھی زائد عرصے سے صدر میں ہر اتوار کو اسٹال لگا رہے ہیں، ان کا ذوق مطالعہ بھی بہت اچھا ہے اور خریداروں سے برتاؤ بھی شاندار ہے۔ ہم بھی کئی برسوں سے ان کے پاس ضرور جاتے ہیں، چائے ملتی ہے اور معیاری کتابیں خصوصی ڈسکاؤنٹ پر خریدتے ہیں۔اس بار دیکھا کہ فریدی صاحب خاصے مایوس نظر آرہے تھے ظاہر ہے اب یہ کام دال روٹی کمانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔

یوں کئی برسوں سے سردیوں میں لاہور جانا ہوتا ہے اور وہاں کا قدیمی آرکیٹکچر دیکھنے کا جتنا جنون ہے وہیں پر مال روڈ اور دیگر جگہوں پر کتابوں کی دکانوں پر جانا ایک فرحت بخش احساس تھا۔ اب وہاں بھی صورتحال مخدوش ہے فیروز سنز بند ہوگئی اور دیگر نجی کتابوں کی دکانیں سخت مشکلات سے گزر رہی ہیں اور تو اور اولڈ بکس کی دکانیں بھی ویران ہوتی جارہی ہیں۔

ادھر ہمارے گلگت بلتستان میں کل قابل ذکر تین یا چار کتابوں کی دکانیں ہیں جن میں اسکردو میں بلتستان بک ڈپو اور سودے بکس گلگت میں نارتھ بک ایجنسی ہے جبکہ دیگر اضلاع میں برائے نام اسٹیشنری کی ایک آدھ دکان ہوگی۔ کووِڈ-19 کے بعد سے تو پورے گلگت بلتستان میں ملکی سطح کا کوئی اخبار نہیں آرہا ہے تاہم غنیمت ہے کہ کچھ ریجنل اخبارات چھپ رہے ہیںمگر ان کی سرکولیشن بھی گھٹ کر رہ گئی ہے۔

باقی شہروں کا اندازہ نہیں تاہم اسلام آباد کے ہر سیکٹر میں بلند وبالا عمارتیں تعمیر ہورہی ہیں وہیں پر کھانے، کپڑے اور جوتوں کے برانڈز کی دکانیں روز بروز کھل رہی ہیں مگر اخبار، رسائل اور ادبی کتابیں مفقود ہیں۔ آئی ایٹ مرکز اسلام آبادکے ایک بڑے سیکٹر کا حصہ ہے یہاں کے شاپنگ مال ، کافی شاپ ، برگر اور پیزا آؤٹ لیٹس میں لوگوں کا اژدھام رہتا ہے۔ دکانوں اور پلازوں کے ڈیزائن اور تعیش بھری اشیاء کے اسٹورز دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔

میں گزشتہ تین چار سال سے سردیوں میں وہیں آئی ایٹ مرکز کے قریب اپنے چھوٹے بھائی کے گھر قیام کرتا ہوں۔ قریب کچنار پارک میں واک کے بعد آئی ایٹ مرکز جاکر جوس پینے جب بھی جاتا ہوں تو یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنے بڑے مرکز میں ڈھنگ کی علمی ادبی کتابوں کی کوئی ایک دکان بھی نہیں اور نہ ہی روزمرہ کے اخبار دستیاب ہیں۔

آج کل یہ کہا جاتا ہے کہ انٹرنیٹ ، سوشل میڈیا اور ڈیجیٹلائزیشن کی وجہ سے پڑھنے کا Mode بدل گیا ہے۔ کیا واقعتاً ایسا ہوا ہے یا دلچسپی کے ذرائع بدل گئے ہیں۔

دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے استعمال اور کتب بینی کے رحجان کے باہمی ارتباط کے حوالے سے کئے گئے مختلف بین الاقوامی سروے کچھ اور صورتحال کی نشان دہی کرتے ہیں۔انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ذرائع تک رسائی کے حوالے سے دنیا بھر میں سروے اور ڈیٹا مرتب ہوتا رہتا ہے۔ اس ضمن میں گلوبل اکانومی کی طرف سے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق چین، امریکہ، جاپان، برازیل ، جرمنی ، روڈ اور انڈیا ان ممالک میں شامل ہیں جہاں انٹرنیٹ سبسکرائبر سب سے زیادہ ہیں۔جبکہ سوشل میڈیا کے استعمال میں بھی یورپ، امریکہ ، کیریبین ایریا وغیرہ اوسطاً سب سے آگے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اب ان ممالک کی بھی درجہ بندی دیکھیں جہاں زیادہ سے زیادہ کتابیں پڑھی جاتی ہیں۔ 2024 کے تحت مرتب کی گئی ایک رپورٹ میں 102ممالک شامل ہیں جہاں پر کتابیں پڑھنے کے رحجان کو ظاہر کیا گیا ہے۔ اس درجہ بندی کے مطابق امریکہ پہلے نمبر، انڈیا دوسرے نمبر پر، برطانیہ تیسرے ، فرانس چوتھے اور اٹلی پانچویں نمبر پر ہیں۔ ان ممالک کے بعد بالترتیب روس، آسٹریلیا ، اسپین ، نیدرلینڈز اور سوئٹزر لینڈ وغیرہ کا نام آتا ہے۔ پاکستان کام نام درجہ بندی میں 100ویں نمبر پر ہے۔

یہ کہنا کہ ڈیجیٹل ذرائع کی وجہ سے کتب بینی میں کمی آئی ہے درست نہیں کیونکہ جو ممالک کتب بینی کے حوالے سے سر فہرست ہیں وہاں تو ہم سے کئی گنا زیادہ ڈیجیٹل سہولیات موجود ہیں مگر وہاں پھر بھی کتابیں بھی پڑھی جارہی ہیں۔

دراصل یہ اجتماعی سماجی شعور کی نشان دہی ہے کہ ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا کے فیوض و برکات سے زیادہ فیض یاب ہونے کے باوجود ان متذکرہ ممالک میں کتب بینی کی روایت تازہ دم ہے۔ ہم نے سنا ہے کہ باہر کے ملکوں میں ٹرین، ہوائی جہاز، بسوں اور میٹرو میں سفر کے دوران ہر کسی کے ہاتھ میں کتاب، میگزین یا پڑھنے کا کوئی مواد ضرور ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں لائبریری ، کتابوں کی دکانیں اور پبلشرز قائم دائم ہیں اور لکھنے والے بھی قلم سے رشتہ مزید مضبوط کررہے ہیں۔ ہمارے ہاں الٹ پھیر ہے اور ایسے میں کوئی ایک آدھ نجی سطح پر کتب فروش موجود ہیں تو وہ بھی نالاں اور دہائی دے رہے ہیں کہ اس سے بہتر تھا پیزا، برگر یا کوئی کھابے کا کاروبار کرتے اور پیسے کھرے کرلیتے۔

تازہ ترین