• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر کے195ممالک کی آبادی 8.1 ارب ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے جس کی آبادی بڑھنے کی شرح 2.5 فیصد سالانہ ہے۔ 25کروڑ آبادی والایہ ملک صرف چار صوبے صوبوں پر مشتمل ہے ۔قیام پاکستان کے وقت بھی چار صوبے تھے اور بلوچستان کو صوبے کا درجہ 1970ء میں ملا۔

1955 ء کے آئین کے تحت ون یونٹ قائم کر کے صوبوں کو ختم کر دیا گیاجس کا بنیادی مقصد مغربی پاکستان کو مشرقی پاکستان کے برابر لانا تھا جو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا صوبہ تھا۔ ون یونٹ کے خلاف بہت احتجاج ہوا، تحریکیں چلیں لیکن بے سود رہیں۔ آخر کار 1970ء میں جنرل یحییٰ نے ون یونٹ ختم کر کے صوبوں کو دوبارہ بحال کر دیا اور بلوچستان کو بھی صوبے کا درجہ دے دیا گیا۔ تھوڑے ہی عرصے بعد مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا۔ 1970ء کے بعد آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا لیکن ملک کے صرف چار صوبے ہی رہے۔

بڑی آبادی والے صوبوں کی وجہ سے گورننس کا نظام غیر موثر، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم اور عوامی مسائل پیچیدہ تر ہوتے گئے۔ طاقت کے بل بوتے پر خاندانی سیاست کو فروغ ملا اور صوبائی اشرافیہ تمام مراعات پر قابض ہو گئی ۔پسماندہ اور دور دراز علاقے محرومی کا شکار ہو گئے ان کو صحت، تعلیم ،روزگار ،صفائی، پینے کے پانی اور دوسرے بنیادی اختیارات بھی مہیا نہ ہو سکے۔ وفاق کمزور ہوتا چلا گیا اور 18ویں ترمیم کے بعد تو صوبے بہت ہی طاقتور ہو گئے۔

اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں چھوٹے صوبے یا انتظامی یونٹس بنا دینے چاہئیں تاکہ اختیارات اور وسائل صرف طاقتور لوگوں کے بجائے عوام تک پہنچ سکیں۔ نئے صوبے بنانے سے مقامی لوگوں کی ترقی ہوگی، سیاسی اجارہ داری ٹوٹ جائے گی اور وفاق مضبوط ہو جائے گا۔ اگر ہم اپنے ارد گرد ملکوں پر نظر ڈالیں تو بہت سارے ممالک ہیں جن کی آبادی پاکستان سے بھی کم ہے۔

نظام کو بہتر انداز میں چلانے کیلئے زیادہ سے زیادہ صوبے یا انتظامی یونٹ بنا دیئے گئے ہیں مثلاً افغانستان کی آبادی ساڑھے چار کروڑ اور 34صوبے، سری لنکا دو کروڑ آبادی 9صوبے، ترکی ساڑھے آٹھ کروڑ آبادی 81صوبے، ایران 9کروڑ آبادی 31صوبے، سعودی عرب ساڑھے تین کروڑ آبادی 13صوبے، عراق 44 لاکھ آبادی 19صوبے، بنگلہ دیش ساڑھے 17کروڑ 8آبادی صوبے، جرمنی9 کروڑ آبادی 16 صوبے، امریکہ 33کروڑ آبادی 52ریاستیں اور روس کی ساڑھے 14کروڑ کی آبادی کے 85 یونٹس ہیں۔

سیاستدان خدمت کے دعوے تو بہت کرتے ہیں لیکن توجہ بڑے صوبوں پر ہی دیتے ہیں جسکی وجہ سے چھوٹے صوبوں میں احساس محرومی پیدا ہو جاتا ہے مثلاً بلوچستان رقبہ کے لحاظ سے تقریبا ًباقی پاکستان کے تمام صوبوں کے برابر ہے لیکن آبادی کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر ہے ۔ معدنیات سے مالا مال لیکن قومی اسمبلی کی صرف 17 سیٹوںکی وجہ سے کوئی حکومت یا سیاستدان اسکی ترقی و خوشحالی پر زیادہ توجہ نہیں دیتا۔

چھوٹے صوبے یا انتظامی یونٹس بننے سے ان میں احساس محرومی کم ہو جائے گا اور ان کے وسائل مثلاً معدنیات، زراعت، تجارت اور انڈسٹری میں ان کی شراکت بہتر انداز میں ہو جائے گی، پسماندہ اور دور دراز لوگوں کے مسائل تیزی سے اور مقامی طور پر حل ہونے لگیں گے اور ان کے حالات کے مطابق بہتر انداز میں پالیسیاں بنائی جا سکیں گی۔ نئی اور صاف ستھری قیادت میسر آئے گی، کرپشن اور احساس محرومی کے امکانات کم ہو جائیں گے، عوام کی حکومت میں شمولیت کا احساس زیادہ ہوگا اور دوسرے صوبوں کے ساتھ بہتر ہم آہنگی ہو جائے گی۔

زیادہ یونٹس بننے سے روزگار کے زیادہ مواقع میسر ہوں گے اور معیشت احتساب کی وجہ سے بہتر ہونا شروع ہو جائے گی،وفاق مضبوط ہوگا ،سیاسی اجارہ داریاں ختم ہو جائیں گی،وسائل کی منصفانہ اور متوازن تقسیم ہوگی۔

وفاق کو ملک کے مفاد کے حوالے سے فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی ،عوام کو اپنی ثقافتی ،لسانی اور جغرافیائی شناخت کے مطابق نمائندگی ملے گی اور چھوٹے صوبوں میں بھی وفاق میں شراکت داری کا احساس اجاگر ہو جائے گا ۔

نئے صوبوں کے مخالفین اکثر یہ کہتے ہیں کہ زیادہ صوبے بنانے سے ملک پر وسائل کا بوجھ ہوگا لیکن اگر دیانت دار قیادت صحیح پلاننگ کرے تو اس عمل کے ذریعے معیشت بہتر ہوگی اور لوگوں کے مسائل زیادہ حل ہو سکیں گے اس طرح وفاقی حکومت بھی مضبوط ہو جائے گی۔

تازہ ترین