• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کی امیگریشن پالیسی اور خاص طور پر H1-B ویزا ہمیشہ سے دنیا کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کیلئے ایک خواب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس ویزےکے ذریعے لاکھوں غیر ملکی ماہرین خصوصاً آئی ٹی ،انجنیئرنگ ، سائنس و ٹیکنالوجی، ایجوکیشن اور میڈیسن کے شعبے میں امریکہ جا کر نہ صرف بڑی کمپنیوں کا حصہ بنتے ہیں بلکہ وہاں کی معیشت اور سماجی ڈھانچے پر بھی گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ اس پورے سلسلے میں بھارت نے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔ بھارتی طلبہ کی بڑی تعداد پہلے تعلیمی ویزے کے ذریعے امریکہ جاتی ہے اور پھرمستقل سکونت اختیار کر لیتی ہے، H1-B پروفیشنل ویزا ہولڈر بھارتی بھی ہر سال امریکہ میں لاکھوں کی تعداد ملازمتیں حاصل کر لیتے ہیں۔

اعداد و شمار یہ بتاتے ہیں کہ امریکہ میں زیرِ تعلیم بین الاقوامی طلبہ میں سب سے زیادہ تعداد بھارتی طلبہ کی ہے۔ اس کے بعد چین دوسرے نمبر پر آتا ہے جبکہ پاکستان کے طلبہ کی تعداد ان کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ یہی حال H-1B ویزا کے معاملے میں بھی ہے جہاں بھارت کے انجینئرز اور اسکلڈ ورکرز تقریباً ستر فیصد کوٹہ حاصل کر لیتے جبکہ چین کا حصہ بارہ فیصد ہے لیکن پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ بھارت اور چین نے امریکی تعلیمی اداروں میں طالب علموں اور ٹیکنالوجی سیکٹر میں اپنے ماہرین بھیجنے کیلئے ایک منظم حکمتِ عملی اپنا رکھی ہے، جسکے نتیجے میں انکے لاکھوں نوجوان امریکہ میں جگہ بنا چکے ہیں۔

امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے بھی بھارتی ورک فورس کو برسوں خوش آمدید کہا کیونکہ وہ بہتر تربیت یافتہ اور مقامی امریکی کارکنوں کے مقابلے میں کم تنخواہوں پر کام کرنے پر آمادہ تھے۔ اس سے کمپنیوں کے اخراجات گھٹ گئے، کارکردگی بہتر ہو گئی اور وہ زیادہ منافع کمانے لگیں۔ دوسری طرف بھارتی کارکنان کو عالمی معیار کی ٹریننگ، تجربہ اور دولت ملی ،ان میں کچھ نے واپس بھارت جا کر نئے کاروبار، اسٹارٹ اپ شروع کیے ، بعض امریکی کمپنیوں نے چنائی ،بنگلور، حیدرآباد، ممبئی اور پونا جیسے شہروں میں کال سینٹرز ، ڈیٹا سینٹرز اور سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ کے مراکز قائم کیے ، تاہم اب اس فیلڈ میں بھارتی اجارہ داری بتدریج کم ہو رہی ہے اور یہ ماڈل اب دباؤ کا شکار ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں یہ بحث شدت پکڑ گئی ہے کہ غیر ملکی کارکنان مقامی شہریوں کی ملازمتوں پرقبضہ کر رہے ہیں۔ امریکہ میں یہ سوچ خاص طور پر اس وقت مضبوط ہوئی جب ڈونلڈ ٹرمپ نے ’امریکیوں کیلئے ملازمتیں‘کا نعرہ بلند کیا۔ ان کا مؤقف ہے کہ بھارتی اور دیگر غیر ملکی کارکن امریکی نوجوانوں سے مواقع چھین لیتے ہیں ، اور اس پروگرام سے غلط فائدہ اٹھایا جا رہا ہے ۔ اسی وجہ سے نئے آنے والوں کے H1-B ویزا کی فیس میں ہوشربا اضافہ کر کے اسکی منظوری مشکل بنائی جا رہی ہے اور مقامی امریکن نئے گریجویٹس کو تربیت دے کر اس شعبے میں آگے لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ تاہم مقامی کارکنان کو تیار کرنے کیلئے وقت اور وسائل درکار ہیں، جب کہ کمپنیاں فوری طور پر تربیت یافتہ ہنر مند چاہتی ہیں جسکیلئے انہیں آف شور جانا پڑے گا۔یہ صورتحال بھارت کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے۔ جس ملک نے دہائیوں تک امریکہ اور یورپ میں اپنی سروسز دے کر اور افرادی قوت بھیج کر ڈالرز کمائے اور اپنی معیشت کو مضبوط کیا آج وہی ملک ویزا پابندیوں اور سیاسی مخالفت کا سامنا کر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض بھارتی کمیونٹیز نے ماضی میں بیرون ملک پاکستانیوں کے خلاف سخت رویے اختیار کیے تھے، لیکن اب وہ خود امریکہ، کینیڈا اور آسٹریلیا اور یورپ میں اسی طرح کے تعصبات اور مخالفت کا نشانہ بن رہے ہیں۔پاکستان کیلئے اس صورتحال میں امکانات بھی ہیں اور مشکلات بھی۔ اگر ہم دانش مندی سے حکمتِ عملی بنائیں تو یہ ہمارے لیے ایک موقع بن سکتا ہے۔ امریکی کمپنیاں بھارت اور چین پر مکمل انحصار کرنے کے بجائے دیگر ممالک جن میں فلپائن ، ویتنام ، ملیشیا، پولینڈ، برازیل وغیرہ شامل ہیں آف شور مراکز بنانے اور آؤٹ سورسنگ پر کام کر رہی ہیں۔ اگر پاکستان اپنے نوجوانوں کو عالمی معیار کی آئی ٹی تربیت دے، انٹرنیٹ اور توانائی کے ڈھانچے کو بہتر کرے اور سرمایہ کار دوست ماحول فراہم کرے تو ہم بھی اس مارکیٹ میں داخل ہو سکتے ہیں۔اس مقصد کیلئے حکومت کو چاہیے کہ کوڈنگ، ڈیٹا سائنس، مصنوعی ذہانت ، کلاؤڈ کمپیوٹنگ، ای کامرس اور سائبر سکیورٹی جیسے شعبوں میں بڑے پیمانے پر تربیتی پروگرام شروع کرے۔ تعلیمی اداروں کو ان جدید سائنسی مضامین میں کورسز اور ڈگری پروگرامز متعارف کرانے چاہئیں۔ نجی شعبے کو اسٹارٹ اپ کلچر کو فروغ دینے کیلئے سہولتیں فراہم کرنی چاہئیں۔ انٹرنیٹ کی رفتار، بجلی کی فراہمی ، ٹیکنیکل اور قانونی مدد اور بااعتماد،مُستعد غیرملکی زبانوں پر عبور رکھنے والی بڑی ورک فورس تیار کر کے غیر ملکی کمپنیوں کو یہ یقین دلایا جا سکتا ہے کہ پاکستان ایک قابلِ اعتماد پارٹنر بن سکتا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ بھارت نے جو مقام حاصل کیا ہے، وہاں تک پہنچنے کیلئے پاکستان کو کئی سال محنت کرنی پڑے گی۔ لیکن حالات بدل رہے ہیں۔ دنیا کی بڑی معیشتیں نئے اتحادی اور نئے پارٹنر ڈھونڈ رہی ہیں۔دنیا تیزی سے بدل رہی ہے ، پاکستان کی ریاست ، تعلیمی اداروں اور کروڑوں نوجوانوں کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ وہ نئی بدلتی دنیا میں ٹیلنٹ اور کارکردگی سے اپنی جگہ بنائیں ۔ اگر پاکستان نے بروقت منصوبہ بندی کی اور ٹیکنالوجی کو قومی ترجیح بنایا تو ہم اس خلا سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ بصورتِ دیگر یہ موقع بھی ضائع ہو جائے گا اور پاکستان ہمیشہ کی طرح تماشائی بنا رہے گا۔

(صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین