• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تقریر تو زبردست تھی۔ اندازِ بیان میں اعتماد بھی جھلک رہا تھا لیکن ایک غیر متوقع تنازعے نے وزیر اعظم شہباز شریف کی طرف سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی جانیوالی تقریر پر شکوک و شہبات کے سائے پھیلا دیئے ۔ وزیر اعظم کے وفد میں ایک برطانوی شہری کو شامل کیا گیا جو مبینہ طور پر ماضی میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی پرستار رہی ہیں اور 2023 ء میں حکومت پاکستان سے تمغہ امتیاز بھی وصول کر چکی ہیں ۔ یہ خاتون اقوام متحدہ میں وزیر دفاع خواجہ آصف کے پیچھے بیٹھی نظر آئیں تو سوشل میڈیا پر سوال اُٹھایا گیا کہ اسرائیل کیساتھ دوستی کی کھلم کھلا حمایت کرنیوالی یہ خاتون پاکستانی وفد کے ساتھ کیا کر رہی ہے ؟ خواجہ آصف نے فوری طور پر اس خاتون سے اعلان لاتعلقی کر دیا اور موصوفہ کو سرکاری وفد میں شامل کرنے کی ذمہ داری دفتر خارجہ پر ڈال دی دفتر خارجہ نے کمال سرعت سے ایک بیان جاری کر دیا کہ اس خاتون کا نام پاکستانی وفد میں وزارت خارجہ کی منظوری سے شامل نہیں کیا گیا۔ مذکورہ خاتون کا دعویٰ تھا کہ وہ وزیر اعظم کی اسپیچ رائٹر ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل کیساتھ دوستی کی حمایت کرنیوالی ایک برطانوی شہری پاکستان کے وزیراعظم کی اسپیچ رائٹر کیسے بن گئی ؟ وزیر اعظم نے تو جنرل اسمبلی میں تقریر کے دوران غزہ میں اسرائیل کے مظالم کی بھر پور مذمت کی لیکن سوشل میڈیا وزیر اعظم ، وزیر دفاع، وزیر خارجہ کیساتھ اس اسرائیل نواز خاتون کی بہت سی تصویروں سےبھر گیا ۔ ان تصویروں نے دفتر خارجہ کی وضاحت کو ایک مذاق بنا دیا ۔ ایک اور بحث یہ شروع ہو گئی کہ وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی وزیر اعظم شہباز شریف کیساتھ ملاقات میں فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر تو شامل تھے لیکن ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کیوں موجود نہیں تھے ؟ یہ سوال اس لئے پیدا ہوا کہ اس ملاقات میں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو موجودتھے تو پھر پاکستان کے وزیر خارجہ ملاقات میں کیوں شامل نہیں تھے ؟ اس انتہائی اہم ملاقات کے بعد صدر ٹرمپ اور وزیر اعظم شہباز شریف نے میڈیا سے بات کیوں نہ کی ؟ اس پورے دورے کے دوران وزیر اعظم شہباز شریف غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کیلئے چالیس سے زیادہ ممالک کے ایک بحری قافلے پر اسرائیل کے ڈرون حملوں پر خاموش رہے حالانکہ اس قافلے میں سابق سینیٹر مشتاق احمد خان سمیت کچھ دیگر پاکستانی بھی شامل ہیں ۔ بہرحال نیتوں کا حال تو صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے لیکن فلسطین پر موجودہ حکومت کی پالیسی پرپاکستانی عوام بہت سے خدشات کا شکار ہیں ۔ پاکستانی عوام کی سوچ وہی ہے جو قائد اعظم محمد علی جناح کی تھی ۔ پاکستانی عوام دو ریاستی فارمولے کے نام پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حق میں نہیں ہیں اور اگر اس دو ریاستی فارمولے کے نام پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کی کوشش کی گئی تو حکومت کیلئے بہت مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔مانا کہ تحریک انصاف کی قیادت کو کسی نہ کسی طریقے سے اپنے کنٹرول میں رکھا جا سکتا ہے ، عدلیہ اور میڈیا کو بھی قابو کیا جا سکتاہے لیکن جس دن کسی معاملے پر عوام کاغم و غصہ قابو سے باہر ہو گیاتو حکومت کیلئے مشکل ہو سکتی ہے۔تحریک انصاف اس حکومت کیلئے کوئی خطرہ نظر نہیں آتی۔ تحریک انصاف نے 27 ستمبر کو پشاور میں ایک بڑا جلسہ کر لیا لیکن یہ جلسہ حکومت کیلئے کوئی خطرہ نہیں بنا۔ہو سکتا ہے کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں بھی حکومت کو اپنے لئے کوئی خطرہ نظر نہ آئے لیکن خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں اور آزاد کشمیر میں بے چینی تیزی سے بڑھ رہی ہے ۔ اس بے چینی کو دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ پہلے بھی عرض کیا تھا۔ دوبارہ عرض ہے کہ قبائلی علاقوں کے عوام کیساتھ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے جو وعدے کئے تھے انہیں فراموش کر دیا گیا ۔

قائد اعظم نے 17اپریل 1948ء کو پشاور میں تمام قبائلی علاقوں کے دو سو سے زائد عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے قیام پاکستان کیلئے قبائل کی حمایت کا شکریہ ادا کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ ہمیں آپ پر بھر پور اعتماد ہے اسلئے ہم وزیرستان سے فوج واپس بلا رہے ہیں ۔اس تقریر میں قائد اعظم نے یہ بھی کہا کہ ہم آپکی اندرونی آزادی میں کوئی مداخلت نہیں کرینگے بلکہ ہم آپکو پوری عزت دیں گے ۔ قائد اعظم نے کہاتھا کہ ہم آپکی بھلائی کیلئے جو بھی فیصلہ کریں گے وہ آپکے مشورے سے کرینگے ۔ قبائلی عمائدین نے یہاں مطالبہ کیا تھا کہ انہیں صوبائی حکومت کے ماتحت نہ رکھا جائے بلکہ وفاق کے ماتحت رکھا جائے۔ قائد اعظم نے اُنکا یہ فیصلہ تسلیم کیا۔ بہت سے قبائلی عمائدین کیساتھ قائداعظم کی خط و کتابت بھی جاری رہتی تھی ۔ ان میں خیبر ایجنسی کے آفریدی قبائل کے ایک رہنما ملک کے کے آفریدی سر فہرست تھے جنہوں نے مشرقی پنجاب میں مسلمانوں کے قتل عام کو نہ روکنے کی صورت میں انتقام لینے کا اعلان کیا تو 17 ستمبر 1947 ء کو قائداعظم نے انہیں اپیل کی کہ وہ پرامن رہیں اور قتل عام کا جواب قتل عام سے نہ دیں ۔ پختون قبائل سے قائد اعظم کے وعدوں کو سامنے رکھتے ہوئے 1973 ء کے آئین میں دفعہ 247 شامل کی گئی جسکی ذیلی شق چھ کے تحت قبائلی علاقوں کو وفاق کے ماتحت رکھا گیا لیکن مئی 2018 ء میں 25 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا ۔ اس آئینی ترمیم کے پیچھے اُسوقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا کردار بڑا اہم تھا جنہوں نے یہ تاثر دیا کہ قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا میں ضم کرنے کے بعد ان علاقوں میں دہشتگردی ختم ہو جائے گی ۔ افسوس کہ ان قبائلی علاقوں میں امن وامان کی صورتحال پہلے سے بھی زیادہ بگڑ چکی ہے ۔ قبائلی علاقوں کی سات ایجنسیاں صوبے کا حصہ تو بن گئیں لیکن آج بھی یہاں کے عوام کو وہ حقوق حاصل نہیں ملے جو باقی علاقوں کے شہریوں کو حاصل ہیں ۔ اسی ناانصافی کی وجہ سے 25ویں آئینی ترمیم کو چار سو سے زائد قبائلی عمائدین نے 2020 میں سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ۔ اس آئینی درخواست میں قائد اعظم کی اس تقریر کا حوالہ بھی دیا گیا جو انہوں نے 17 اپریل 1948 ء کو پشاور میں کی تھی درخواست میں 25 ویں آئینی ترمیم کو قائد اعظم کے وعدوں کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ۔درخواست میں کہا گیا کہ آئین کی دفعہ 239 کے تحت پارلیمنٹ آئین میں ترمیم تو کر سکتی ہے لیکن دفعہ 247 کو آئین سے حذف نہیں کر سکتی ۔ اس درخواست کی چند سماعتیں ہوئیں لیکن 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد اس درخواست کی کوئی سماعت نہیں ہوئی ۔ اب اگر کوئی کہے کہ قائد اعظم کا وعدہ ماضی کا ایک قصہ ہے، پارلیمنٹ نے جو فیصلہ کر دیا اُسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا تو پھر جواب میں کہا جائے گا کہ ہم آپکی پارلیمنٹ اور آئین کو نہیں مانتے۔افسوس کہ قبائلی علاقوں میں ریاست خود آئین کی دفعہ 256کی خلاف ورزی کرتے ہوئے امن لشکر کے نام پر مسلح گروہوں کی پشت پناہی کر رہی ہے ۔ قبائلی علاقوں میں بد امنی کا افغانستان سے گہرا تعلق ہے۔جب سے صدر ٹرمپ نے خواہش ظاہر کی ہے کہ وہ افغانستان کے بگرام ائر بیس پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتےہیں معاملات مزید پیچیدہ ہو رہے ہیں ۔ یہ سوال زیر بحث ہے کہ کیا امریکا بگرام ائر بیس تک رسائی کیلئے پاکستان کی مدد چاہتا ہے ؟ پاکستان کو اس تنازعے میں الجھانا پاکستان کے مفاد میں ہو گا یا نہیں؟ حکومت اپنی سفارتی کامیابیوں کے دعوے تو بہت کر رہی ہے لیکن ٹرمپ کے اس بیان پر خاموشی کیوں ہے جس میں اُنہوں نے کہا کہ وہ بگرام ائر بیس اس لئے واپس چاہتے ہیں کیونکہ وہاں سے چین کی ایٹمی تنصیبات صرف ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہیں ؟

تازہ ترین