• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں موٹروے پر گاڑی چلا رہا تھا، ٹریفک پولیس نے روکا اور اوور اسپیڈنگ پر میرا چالان کردیا، میں نے انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی کہ ـ’’میری گاڑی ،میری مرضی‘‘ لیکن انہوں نے ایک نہ سنی اور جرمانہ کردیا ۔ میرا ذاتی فیس بک اکاؤنٹ ہے میں جو چاہے لکھوں لیکن چند روز پہلے فلسطین کیخلاف اسرائیلی جارحیت پر کچھ لکھا تو میرے اکاؤنٹ پر یہ کہتے ہوئے پابندی لگادی گئی کہ آپ کی پوسٹ ہماری کمیونٹی گائیڈ لائنز کے مطابق نہیں۔ میں نے انہیں قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ کمیونٹی جائے بھاڑ میں، یہ میرا اکاؤنٹ ہے ،میں اس پر جو چاہے پوسٹ کروں ،تم کون ہوتے ہو، روکنے والے۔ مگر انہوں نے میری ایک نہ سنی اور اکاؤنٹ بلاک کردیا ۔ہمارے ہاں اس طرح کی کئی مثالوں سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی جا تی ہے کہ ’’میرا جسم ،میری مرضی‘‘ کا نعرہ کس قدر لغو اور بیہودہ ہے۔ دلائل کا پہاڑ جمع کرکے بیٹھے صالحین فرماتے ہیں کہ میرا جسم میری مرضی کی زندہ مثال تو خود کش حملہ آور ہے جو کبھی کہیں بھی آکر پھٹ جاتا ہے کیونکہ اس کا جسم اس کی مرضی۔ تو پھر آپ لوگ اعتراض کیوں کرتے ہیں ۔اس طرح کی سطحی باتیں سن کر محسوس ہوتا ہے کہ جب تعصب اور نفرت کا موتیا اتر آئے توبھلے چنگے افرادکی بصیرت ہی نہیں بصارت بھی کھو جاتی ہے ۔

دنیا میں لامحدود آزادی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا ۔سماجی ،مذہبی ،اخلاقی قدغنیں اور پابندیاں ہر جگہ کسی نہ کسی شکل میں بہر طور موجود رہتی ہیں ۔مثال کے طور پر اظہار رائے کی آزادی کانعرہ پوری دنیا میں لگتا ہے ،ہم سب اس نعرے کی تائید و حمایت بھی کرتے ہیںمگراس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ مغلظات بکنے کی آزادی چاہتے ہیں،آپ لوگوں کی تذلیل وتحقیر کرنے اور پگڑیاں اچھالنے کا حق مانگتے ہیں ۔اسی طرح جب ہم آزادی صحافت کی بات کرتے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں لیا جاتا کہ ہتک عزت اور توہین عدالت جیسے قوانین ختم کر دیئے جائیں ۔جب ہم اظہار رائے کی آزادی کی بات کرتے ہیں تو کوئی نہیں کہتا کہ یہ تو نری بے حیائی ہے ،یہ بات کرنیوالے مادر پدرآزادی کے خواہشمند ہیں ۔جب انسانی حقوق کی بات ہوتی ہے تو کوئی معترض نہیں ہوتا کہ یہ تو اللہ کے بنائے ہوئے نظام سے کھلم کھلا بغاوت ہے ،یہ تو غیر ملکی سازش ہے ۔لیکن جب کوئی خاتون میرا جسم میری مرضی کا نعرہ لگاتی ہے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کہیں ٹھیلا لگا کر اپنا جسم بیچنے لگی ہے اور یہ تو بہت بیہودہ بات ہوگی ۔اگر آپ اپنی کار سے متعلق کہیں کہ ’’میری کار میری مرضی‘‘ تو منطقی اعتبار سے اس کا مفہوم یہی ہوگا کہ اس کی چابی آپ کے پاس ہو،آپ کی اجازت کے بغیر کوئی اسے چھو ئے ناں ،اگر آپ گھر کے باہر گاڑی کھڑی کریں تو کوئی اس پر ڈینٹ نہ ڈال دے ،اگر آپ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ یا یوٹیوب چینل ہے تو اس کا پاسورڈ آپ کے پاس ہو ،کوئی اور آپ کے نام پر پوسٹیں نہ ڈالتا رہے ۔آپ کو اپنا اکاؤنٹ ،اپنی گاڑی ،اپنا گھر اپنی مرضی سے استعمال کرنے کی اجازت ہو لیکن ظاہر ہے کہ معاشرے میں جو حدود وقیودوضع کی گئی ہیں،جو اصول و قوانین طے کئے گئے ہیں، آپ ان کے مطابق ہی اپنی آزادی کو استعمال کریں گے ۔اسی طرح جب کوئی خاتون’’میرا جسم ،میری مرضی‘‘ کا نعرہ لگاتی ہے تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ کوئی اس کی آزادی میں مُخل نہ ہو،اس کے جسم پر حق نہ جتلائے۔

میرے نزدیک تو ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ جب کوئی خاتون گھر سے باہر نکلے تو گلی کے نکڑ پر کھڑے مرد اس کی جسامت اور کپڑوں پر تبصرے نہ کریں ،کوئی اسے ’’تیرا جسم میری مرضی ‘‘کی پالیسی اپناتے ہوئے چھونے کی کوشش نہ کرے ۔کوئی اسے موٹاپے کا طعنہ نہ دے ،جب وہ بس یا وین میں بیٹھے تو پیچھے بیٹھا ہوا مرد اسے ہراساں نہ کرے ،گھر میں بھائی،باپ یا پھر شوہر اسے ترنوالہ سمجھ کر تشدد کا نشانہ نہ بنائے ۔اگر وہ شادی سے انکار کردے تو کوئی بدبخت اس کے چہرے پر تیزاب نہ پھینکے ۔اور اس اصول کا اطلاق محض خواتین پر ہی نہیں ہوتا ۔اس معاشرے میں بچے اور لڑکے بھی جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں ۔خواجہ سرا بھی درازدستی کی زد میں آتے ہیں ،ان کے جسم پر بھی ان کی مرضی ہونی چاہئے اور کسی کو ان کی ذاتی زندگی میں مُخل ہونے کا کوئی حق نہیں ۔

ویسے وہ لوگ جو اس نعرے کی مخالفت کر رہے ہیں اگر ان کا استدلال درست تسلیم کرلیا جائے تو اس کا کیا مطلب ہو گا ’’تیرا جسم ،میری مرضی‘‘۔کیا وہ کسی اور کو اپنے جسم پر اجارہ داری کی اجازت دیں گے ؟اگر گاڑی آپ کی ہو ،استعمال کوئی اور کرے ،گھر آپ کا ہو ،اس میں رہے کوئی اور ،زندگی آپ کی ہو بسر کوئی اور کرے تو کیا آپ گوارہ کرینگے ؟جب بات یہاں تک پہنچتی ہے تو ہم مذہب کو لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ کی مرضی ۔اللہ کی مرضی ضرور لاگو کریں لیکن اس آڑ میں اپنی مرضی تو مسلط نہ کریں ۔کیا اللہ کی مرضی کا تعین کرنے کا اختیار صرف مرد حضرات کو ہے اور عورت کا کوئی حصہ نہیں؟جب کوئی ہوس کا مارا اور عزت کا ہتھیارا کسی معصوم بچی کے ساتھ جبراً زیادتی کرتا ہے ،جب بس اسٹاپ پر ،کالج کے باہر لڑکے آوازے کستے ہیں ، درازدستی کرتے ہیں ،جب کوئی کسی خاتون پر تشدد کرتا ہے ،تیزاب پھینک کر کسی خاتون کی زندگی عذاب بنا دی جاتی ہے تو کیا اس سب میں اللہ کی رضا شامل ہوتی ہے ؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت ہی نہیں مرد بھی بعض مواقع پر صنفی امتیاز کا شکار ہوتا ہے ،یہ بات بھی درست ہے کہ عورت مارچ میں اٹھائے گئے بعض پلے کارڈ اور نعرے قابل اعتراض ہوتے ہیںلیکن جب کوئی کمیونٹی مسلسل ناانصافی اور عدم توازن کا شکار ہوتی ہے تو الفاظ کے انتخاب میں شدت آہی جاتی ہے ،اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ان باتوں کو بنیادبنا کر آپ یہ پروپیگنڈا شروع کردیں کہ عورت مارچ ہمارے خلاف یہود و ہنود کی سازش ہے ۔جمع خاطر رکھیں ،یہود و ہنود کو علمی تحقیق اور سائنسی ترقی سمیت بیشمارکام ہیں اور اگر وہ ہمارے خلاف سازشیں کرنے میں لگے ہوتے تو جدید ٹیکنالوجی ان کے بجائے ہمارے پاس ہوتی ۔ہمارے پاس جھوٹی شان و شوکت، ٹھاٹھیں مارتی منافقت کے علاوہ ہے ہی کیا جس کیخلاف سازش کی جائے ۔

تازہ ترین