مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
میرے مربّی، اتالیق اور پُرخلوص استاد کا درجہ رکھنے والے شکیل احمد صدیقی، انتہائی خاموش طبع، شریف النفس، کشادہ ذہن اور سلجھی ہوئی طبیعت کے مالک ہیں۔ اُن کا، میرا تقریباً چار دہائیوں کا ساتھ ہے۔ وہ پوری برادری میں ’’شکیل بھائی‘‘ کے نام سے معروف ہیں۔ بچّے، جوان، بوڑھے سب ہی انھیں شکیل بھائی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔
انھوں نے اسلامیہ کالج، کراچی سے گریجویشن کے بعد ایس ایم لاء کالج، کراچی میں داخلہ لیا، تاہم کچھ ذاتی وجوہ کی بِنا پر مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ خدمت ِانسانی کے کاموں میں ہمہ وقت خلوص ِ دل سے پیش پیش رہتے ہیں۔ ’’جمعیت دہلی صدیقی برادری‘‘ سے گہری وابستگی کے علاوہ فلاحی و رفاہی خدمات کے حوالے سے کراچی کی کئی سماجی تنظیموں سے ان کا تعلق رہا۔ سابق صدرِمملکت، ضیاء الحق کے زمانے میں بلدیاتی انتخابات میں بھی حصّہ لیا۔
کچھ عرصہ صحافت سے بھی تعلق رہا اور اُس زمانے کے کئی مشہور اخبارات و جرائد میں جُز وقتی اور کُل وقتی ملازمت بھی کی۔ صحافتی میدان میں اُنھیں معروف صحافی، تمثال عسکری، محمودہ سلطانہ، نثار احمد زبیری ، عقیل دانش اور ظہور الحسن بھوپالی کے ساتھ کام کرنے اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اس زمانے میں اشاعت و طباعت کا زیادہ تر کام مینوئل یعنی ہاتھوں سے کیا جاتا تھا،تو اس سلسلے میں انھیں تمام امور پر عبور حاصل تھا، خاص طور پر کاپی جوڑنے اور پروف ریڈنگ میں خاص مہارت حاصل تھی ۔
مَیں نے ایم بی بی ایس کے امتحان میں کام یابی کے بعد ان کی برادری کی ’’رفاہِ عام ڈسپینسری، پاپوش نگر‘‘ میں اُن ہی کے زیر سایہ کئی برس کام کیا۔ اس دوران ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ انھوں نے مجھے نسخہ لکھنے کا طریقہ سکھانے کے ساتھ مریضوں کو تسلّی و تشفّی کے ساتھ مطمئن کرنے کے بہت سے گُر بھی بتائے۔
غرض یہ کہ آج مَیں جو کچھ بھی ہوں، اس میں اُن کی تربیت اور دعاؤں کا بڑا دخل ہے۔ ’’رفاہِ عام ڈسپینسری‘‘ میں خدمات انجام دینے کے دوران ہی مجھے سعودی عرب سے ملازمت کی آفر آئی، توبے حد خوش ہوئے اور مفید مشوروں اور دُعاؤں سے نوازا۔
سعودی عرب پہنچتے ہی میرے لیے ترقی کے راستے کُھلتے چلے گئے، مزید تعلیم کے حصول کا موقع بھی ملا۔ اسی دوران شادی ہوئی اور الحمدللہ، دو بچّوں کا باپ بھی بن گیا۔ سعودی عرب میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد کچھ عرصہ قطر، شارجہ اور دبئی میں بھی ملازمت کی، پھر مستقل طور پر کینیڈا منتقل ہوگیا۔ پاکستان چوں کہ میرا اپنا وطن ہے، سو یہاں جب بھی آتا ہوں،اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب سے ملنے کے علاوہ خاص طور پر شکیل بھائی سے ضرور ملاقات کرتا ہوں اور اُن کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارتا ہوں۔
شکیل بھائی نے خدمتِ خلق کے کاموں کا آغاز زمانۂ طالب علمی ہی سےکیا اور اس ضمن میں کبھی کسی ڈونر سے فنڈ یا رقم کا مطالبہ نہیں کیا، نہ ہی کبھی کسی سے ایک روپیا اس مَد میں لیا، بلکہ ضرورت کے مطابق اشیاء کی فہرست بنا کر ڈونر کے حوالے کردیتے اور اُن ہی کے ہاتھوں تقسیم کرواتے۔
23مارچ 1976ءکو برادری کے پہلے سالانہ انتخابات میں کام یابی کے بعد بے لوث خدمات کا سلسلہ جاری رکھا اور مسلسل5برس تک جمعیت دہلی صدیقی برادری ڈسپینسری، چوہدری عبدالرحمٰن میموریل ڈسپینسری اور سمیع الدین میموریل انڈسٹریل ہوم کو اپنی بہترین صلاحیتوں سے احسن انداز میں چلایا۔ ایک طویل عرصے تک ڈسپینسری کے وسائل سے متعدّد اسکولوں کے غریب بچّوں کی فیسیں ادا کیں۔ ڈسپینسری کے اسٹاف کی شادیوں میں بھرپور مالی تعاون کیا۔
اورنگی ٹاؤن میں منصور نگر کے خاندانوں کے گھروں کی مرمّت کے لیے مالی مدد کی۔ برادری کی مجلسِ عاملہ سے چھیالیس سالہ وابستگی کے دوران بغیر کسی لالچ و طمع کے، صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے کٹھن اور مشکل حالات کا مقابلہ کیا اورناسازئ طبع کے باوجود فلاحی و رفاہی کاموں کا سلسلہ جاری ہے۔
کراچی کی مضافاتی بستیوں میں موبائل (گشتی) مفت ڈسپینسری کے علاوہ تقریباً دوبرس سے خدا کی بستی کے قریب اسلامیہ کالج اولڈ اسٹوڈنٹس ویلفیئر آرگنائزیشن کی جانب سے مفت ڈسپینسری میں نگرانی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
معروف شاعر، راغب مراد آبادی نے ایک نشست میں اُن کی خدمات کے اعتراف میں فی البدیہہ ارشاد فرمایا تھا کہ؎ اِک انعامِ خدا ہے جذبۂ حبِ قوم اُن کا..... محبّانِ قوم میں کیوں نہ ہوں راغب، شکیل احمد۔ (ڈاکٹر محمد ارشد شمسی، کینیڈا)