کچھ لوگ گراں قدر اثاثے کی مانند ہوتے ہیںکہ ایسے لوگوں کی پوری زندگی علم کی ترویج و اشاعت میں گزرتی ہے۔ اُن کے دَم سے عِلم کی شمعیں،نہ صرف اُن کی حیات میں روشن رہتی ہیں، بلکہ بعد از مرگ بھی وہ اپنے علم کے نُور سے لوگوں کے ذہنوں اور دِلوں میں زندہ رہتے ہیں۔ معروف قلم کار اورماہرِ معاشیات محمد احمد سبزواری کا شمار بھی ایسی ہی نابغۂ روزگار ہستیوں میں ہوتا تھا۔
اُن سے جب ہماری ملاقات ہوئی، تو اُس وقت تک وہ اپنی عُمر کی ایک صدی گزار چکے تھے۔ تاہم، اس عُمر میں بھی ثقل سماعت کے علاوہ کوئی عارضہ لاحق نہ تھا۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت پڑھنے، لکھنےاور صحت مندانہ سرگرمیوں میں صرف کرتے، ہمیشہ خوش رہتے اور اسی کو اپنی طویل عُمری کا راز بتاتے۔ ذہنی طور پر اتنے فعال تھے کہ ’’روزنامہ جنگ‘‘ میں معاشیات پر ایک مستقل کالم باقاعدگی سے ہر ہفتے تحریر کرتے۔
پیرانہ سالی کی وجہ سے چلنے پھرنے میں فطری نقاہت تھی، لیکن بغیر کسی سہارے کے چلتے۔ گھر آئے ہر مہمان کو دروازے تک رخصت کرتے۔ وہ فقط ماہرِ معاشیات ہی نہیں، شعر و ادب سے بھی گہرا تعلق رکھتے تھے۔ ایک زمانے میں افسانے بھی لکھے۔ ایک طویل ناول کے علاوہ متعدد کتابوں کے مصنّف بھی تھے۔ ترجمے میں خاص مہارت رکھتے تھے، خاص طور پر اصطلاحات کے ترجمے کے لیے ان کی رائے کو بہت اہمیت دی جاتی۔
انھوں نے ادبی پرچوں کی ادارت بھی کی۔ شاعرِ مشرق، ڈاکٹر علامہ اقبال جب بھوپال تشریف لاتے تو’’ شیش محل، بھوپال‘‘ میں ایک جلسے کا خصوصی اہتمام ضرورکیا جاتا تھا، جس میں عمائدینِ شہرکی ایک بڑی تعدادشرکت کرتی ۔ ایسے کئی مواقع پرسبزواری صاحب کو علامہ اقبال سے شرف ِملاقات کے علاوہ ان کا کلام سُننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔
محمد احمدسبزواری معاشیات اور اقتصادیات کے علوم پر سَند تصوّر کیے جاتے تھے۔ اُن کا شمار اُردو میں بینکاری پر مضامین لکھنے والے ابتدائی لوگوں میں ہوتا تھا۔ نیز، بینکاری اصلاحات پر بھی خاصا کام کیا۔ اُن کا آبائی وطن بھارت کا شہر بھوپال تھا۔یاد رہے، بھوپال نے بڑے بڑے اہلِ علم و دانش کو جنم دیا، اُردو زبان سے محبّت اور اس کی ترقی و ترویج کے لیے مسلسل جدوجہد، گویا اہلِ بھوپال کے خون میں شامل ہے اور محمد احمد سبزواری اسی مردم خیز سرزمین میں 16جنوری 1913ء کو پیدا ہوئے۔
تقسیمِ ہند کے بعد 1948ء میں بھوپال سے پاکستان ہجرت کی۔ بھارت میںوہ بطور راشننگ آفیسرمتعین تھے، تقسیم کے بعدپاکستان میں محکمہ اعداد و شماریات میں ریسرچ اسپیشلسٹ مقررہو ئے اور 1980ء میں بطور چیف اسٹیٹیکل آفیسر ریٹائرمنٹ کے بعدبھی 36برس تک فعال رہے۔ انہوں نے پاکستان ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کالج، لاہور میں پراجیکٹ کوآرڈی نیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور جامعہ کراچی کے شعبہ سوشیالوجی سے بھی وابستہ رہے۔
1993ءمیں بطور کالم نگار، روزنامہ جنگ سے وابستگی اختیار کی، جو تادمِ مرگ قائم رہی۔ اُن کا کالم ’’معیشت کی جھلکیاں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا کرتا تھا۔ انھیں شروع ہی سے پڑھنے، لکھنے سے بے حد لگاؤ تھا۔ ان کی تحریر کردہ ایک کہانی 1931ء میں بعنوان ’’جنون کی کہانیاں‘‘ لاہور سے شائع ہونے والے رسالے ’’تہذیبِ نسواں‘‘ میں شائع ہوئی تھی، اِس اعتبار سے دیکھا جائے، تو ان کے لکھنے کا دورانیہ 80برس پر محیط تھا۔
انہوں نے عثمانیہ یونی ورسٹی، حیدر آباد دکن سے ایم اے کیا۔ 1948ء میں پاکستان ہجرت کے بعد دوران ِملازمت مختلف تربیتی کورسز کے لیے متعدد بار امریکاسمیت دیگر ممالک بھی گئے۔ اردو زبان میں ان کی کتاب ’’ہمارے بینک‘‘ 1942ء میں انجمن ترقی ٔ اردو نے شائع کی، جو بینکنگ کے موضوع پر اردو زبان کی اوّلین کتاب تصور کی جاتی ہے، جب کہ انھیں اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پہلی شماریاتی رپورٹ کا اردو ترجمہ کرنے کا اعزاز بھی حاصل تھا۔ 1997ء میںڈاکٹر محبوب الحق کی کتاب Human development in South Asia کا اردو ترجمہ کیا ، جو آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس نے شائع کیا۔
معاشی اصطلاحات میں بھی سبزواری صاحب کی خدمات قابلِ ذکر اور قابلِ ستائش ہیں۔1951ء میں اردو، انگریزی اصطلاحات پر مبنی کتاب ’’اصطلاحاتِ بینکاری‘‘ شائع ہوئی، جو انگریزی، اردو اصطلاحات کے حوالے سےاہمیت کی حامل ہے۔ ترجمہ نویسی اُن کا خاص موضوع تھا۔ قیامِ پاکستان سے قبل متعدد دستاویزات کے ترجمے کیے، جو آج بھی عثمانیہ یونی ورسٹی، حیدر آباد دکن کے نصاب کا حصّہ ہیں۔
علاوہ ازیں، متعدد مضامین اور دستاویزات اور کتب کے بھی تراجم کیے۔ تبصرہ نویسی میں بھی خاص مہارت رکھتے تھے۔ کراچی سے شائع ہونے والے ادبی جریدے ’’افکار‘‘ اور انجمن ترقی ٔ اردو کے جریدے ’’قومی زبان‘‘ میں ان کے مستقل تبصرے شائع ہوا کرتے۔ اُنھیں اُردو زبان سے بے حد محبّت تھی ۔ شاید اسی وجہ سے بابائے اردو، مولوی عبد الحق سے بھی اُن کے قریبی تعلقات تھے۔ واضح رہے، انھوں نے ماہ نامہ ’’معاشیات‘‘ میں مولوی عبدالحق کے ساتھ کام کیا۔
سبزواری صاحب کی زندگی کے ایک سو سال مکمل ہونے پرمحبانِ بھوپال فورم کے زیراہتمام اُن کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب منعقد کی گئی، جس میں عمائدین ِ شہر کے علاوہ عالمی شہرت یافتہ ایٹمی سائنس دان، ڈاکٹر عبدالقدیر خان نےبھی اُن کی بیش بہا ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا کہ’’ سبزواری صاحب، تاریخ کا ایک اہم حصّہ بنیں گے۔‘‘ مشہور ادیب مسعود احمد برکاتی نے اُن کی شخصیت اور ادبی خدمات کے حوالے سے لکھا۔
’’معروف کالم نگار، ماہرِ معاشیات محمد احمد سبزواری جو ایم اے سبزواری کے نام سے معروف تھے،روزنامہ جنگ میں 23برس مختلف موضوعات پر کالم تحریر کرتے رہے، اُن کا خاص موضوع معاشیات ہو اکرتا تھا۔ اس موضوع پر انہوں نے بے شمار کالمز تحریر کیے،تاہم دیگر علمی و ادبی موضوعات پر بھی لکھتے رہے۔ کتابوں پر تبصرے کرنا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ وہ انجمن ترقی ٔ اردو کے ادبی رسالے ’’قومی زبان‘‘ میں مختلف تصانیف پر تبصرے بھی کیا کرتے تھے۔ کالم نگاری کی دنیا میں محمد احمد سبزواری معمر ترین کالم نگار تھے اور اُن کا آخری کالم روز نامہ جنگ میں 9جولائی 2016ءکوشائع ہوا۔‘‘
محمد احمد سبزواری بہت با ہمّت اور مضبوط اعصاب کے مالک انسان ہی نہیں، معاشی میدان کے بھی بڑے شہ سوار تھے کہ ان کی تخلیقات، معیار اور تعداد کے اعتبار سے ہزاروں میں ہوں گی۔ انہوں نے طویل عرصہ اُردو زبان کو علمی و ادبی سرمائے سے مالا مال کیا، جو رہتی دنیا تک طالبانِ علم کو فیض پہنچاتا رہے گا۔