• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنی زندگی کے پینتالیس سال دنیا کے بڑے مسائل — توانائی، شہروں، صحت اور انفراسٹرکچر — کے ساتھ مشغول گزارے ہیں، اور آج بھی خود کو ایک عمر بھر کا طالب علم کہتا ہوں۔ میں ہو چی منہ سٹی، ہانگ کانگ، بنکاک، ٹوکیو اور بیجنگ کی گلیوں میں گھوما ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ یہ بڑے بڑے شہر کس طرح ارتقاء پذیر ہوتے ہیں اور کس طرح عام انسان کو مرکز میں رکھتے ہیں۔اور جب میں پنجاب واپس آتا ہوں تو ایک ایسی رہنما کو دیکھتا ہوں جو صرف تالیاں بجوانے پر اکتفا نہیں کرتی بلکہ پڑھتی ہے، سیکھتی ہے اور تعمیر کرتی ہے۔جو لوگ ’’تعلیمی دورے‘‘ کو طنز کا نشانہ بناتے ہیں، وہ اصل نکتہ ہی کھو دیتے ہیں۔

دنیا سے سیکھنا — مقصد کے ساتھ

جاپان میں مریم نواز نے شہری منصوبہ بندی، ماحولیاتی نظم و نسق اور انفراسٹرکچر سے متعلق اداروں کا دورہ کیا۔ انہوں نے ویسٹ ٹریٹمنٹ سسٹمز، سیلاب کنٹرول اور شہری طرزِ حکمرانی کا بغور مطالعہ کیا تاکہ ان ماڈلز کو پنجاب میں لاگو کیا جا سکے۔چین میں وہ ایک قدم آگے بڑھیں۔ انہوں نے ٹیکنالوجی کمپنیوں اور اسپتالوں سے روابط قائم کیے اور زندگی بچانے والی جدید مشینری پنجاب کیلئے حاصل کی۔

انہوں نے کہا تھاکہ یہ میرے لیے ایک بڑا اعزاز ہے کہ’’ میں نے چین کی شاندار کامیابی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا‘‘۔اور بیجنگ کے اپنے دورے میں انہوں نے کہاکہ’’گزشتہ سال جب میں اپنے عزیز بھائی کی دعوت پر بیجنگ آئی تھی تو میں نے چین کی حیرت انگیز ترقی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا‘‘۔یہ محض رسمی جملے نہیں ہیں بلکہ ایک وژن کی عکاسی ہیں — کہ پنجاب کو عالمی معیار کے نظاموں سے جوڑنا ہے۔

اصل پیمانہ: انسانی ترقی نہ کہ جی ڈی پی

فی کس آمدنی ایک عدد ہے، جو صرف کاغذ پر موجود ہوتا ہے۔ مگر ایک بچہ جو صاف ہوا میں سانس لے، ایک ماں جو کینسر سے بچ جائے، ایک شہر جس میں صاف پانی اور محفوظ سڑکیں ہوں — یہی اصل انسانی ترقی ہے۔اگر پنجاب میں جدید ویسٹ سسٹم بنیں، اسپتال اپ گریڈ ہوں، درخت لگائے جائیں، ٹرانسپورٹ مہذب ہو، اور عمرِ انسانی میں اضافہ ہو — تو یہ محض پالیسی نہیں بلکہ انسانی وقار کی بحالی ہے۔

حکمرانی میں ایک سی ای او کا انداز

میں کسی جماعت کا آدمی نہیں۔ میں فاصلے سے سیاست کو دیکھتا ہوں۔ میں نے خاندانوں اور حکومتوں کو قریب سے دیکھا ہے اور سیکھا ہے کہ قیادت نعروں سے نہیں بلکہ عمل سے ناپی جاتی ہے۔ آج مریم نواز شریف پنجاب کو ایک سی ای او کی طرح چلا رہی ہیں: بجٹ پر کڑی گرفت، منصوبوں میں نظم و ضبط اور واضح احتساب۔یہ اس دور سے بالکل مختلف ہے جب وسائل ضائع ہوتے اور نااہلی کو انعام دیا جاتا تھا۔ حکمرانی کا سب سے بڑا جرم نااہلی کو انعام دینا ہے، اور سب سے بڑی اصلاح اہلیت کو سراہنا ہے۔

پنجاب کے شہروں میں نمایاں تبدیلی

لاہور، جو کبھی باغوں کا شہر تھا، بربادی کی طرف جا رہا تھا۔ آج میں دیکھتا ہوں کہ مالی درخت لگا رہے ہیں، سڑکیں دوبارہ بن رہی ہیں اور کوڑا کرکٹ اُٹھایا جا رہا ہے۔ لاہور سے آگے — سرگودھا، فیصل آباد اور جنوبی پنجاب کے تحصیلوں میں بھی یہ تبدیلی نظر آتی ہے۔ رویہ بدلا ہے، وژن بدلا ہے۔

دل کی پکار

میرا دل اب بھی ان انسانوں کیلئے روتا ہے جو سیلابوں اور بیماریوں میں مبتلا ہوئے۔ لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ حکومت کھڑی ہوتی ہے، عوام کے ساتھ کھڑی رہتی ہے اور مسائل حل کرتی ہے تو مجھے اُمید نظر آتی ہے۔پھر کیوں ہم پاکستان میں کسی رہنما کا مذاق اُڑاتے ہیں جب وہ دنیا سے سیکھنے جاتا ہے؟ ہر کامیاب ایشیائی شہر میں رہنما دنیا سے سیکھتے ہیں اور اپنے لوگوں کیلئے نظام لے آتے ہیں۔ریکارڈ پر رکھیںکتنے ادارے دیکھے گئے، کتنے معاہدے ہوئے، کتنی مشینیں درآمد ہوئیں۔ یہ سب دکھاوا نہیں بلکہ زندگیاں بچانے کے ذرائع ہیں۔

آخری بات

میں ایک مسافر ہوں، ایک مبصر، ایک عمر بھر کا طالب علم۔ اور اسی نظر سے کہتا ہوں کہ مریم نواز شریف پنجاب کو ایک باصلاحیت ایگزیکٹو کی طرح چلا رہی ہیں، نہ کہ محض ایک مقرر کی طرح۔اگر وہ اسکول بہتر بناتی ہیں، صحت کے نظام شروع کرتی ہیں، شہروں کو دوبارہ تعمیر کرتی ہیں اور لاکھوں انسانوں کو وقار دیتی ہیں — تو یہ طنز کی نہیں بلکہ تحسین کی بات ہے۔قیادت کا پیمانہ جی ڈی پی نہیں بلکہ ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس ہے۔پنجاب بدل رہا ہے — اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم تبدیلی کو نعروں میں نہیں بلکہ انسانی زندگیوں میں ناپیں۔

تازہ ترین