’’طاقتیںتمہاری ہیںاورخدا ہمارا ہے‘‘سے لے کر’’افغانستان ایک دشمن ملک ہے‘‘ تک کا سفر پاکستان کے پالیسی سازوں نے چند برسوں میں ہی طے کر لیا، جس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان کی افغانستان اور طالبان پالیسی کس حد تک جذباتی،نا پائیدار اور غیر مستحکم بنیادوں پر قائم تھی۔ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستانیوں نے یہ توقعات باندھ لیں کہ شاید اب افغانستان پاکستان کا پانچواں صوبہ بن کر کام کرےگا لیکن وہ یہ بھول گئے کہ تمام تر مسائل کے باوجود افغانستان بہرحال ایک علیحدہ ریاست ہے۔افغان طالبان کی کابل آمد کے بعد پاکستانی پالیسی سازوں کو بہت خوشی تھی کہ انہوں نے افغانستان سے بھارتی مداخلت اور اثر و رسوخ کا مکمل خاتمہ کر دیا ہے۔ لیکن چند ہی سال بعد یہ بیانیہ دوبارہ منظر عام پر آنا شروع ہو چکا کہ اب بھی بھارت افغانستان کے ذریعے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کر رہا ہے۔
کیا یہ نہیں پوچھا جانا چاہیے کہ متضاد سوچ رکھنے والی غنی حکومت اور طالبان حکومت دونوں پر ایک ہی بیانیہ کیسے بنایا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ اس ساری صورتحال میں وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے بیان دیا کہ افغانستان خوارج اور پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرلے۔ یہاں تاریخ کو سامنے رکھیں تو پاکستان کے وزیراعظم کی جانب سے ایسا بیان دیا جانا مناسب دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اگر پالیسی سازوںکو کالعدم تحریک طالبان پاکستان، القاعدہ اور افغان طالبان کے باہمی ربط ، تزویراتی رابطے اور نظریاتی وابستگی کا علم نہیں ہے تو اس پر افسوس کا اظہار ہی کیا جا سکتا ہے۔ اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ افغان طالبان کی کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے پالیسی محض اس لیے تبدیل ہو جائے گی کہ پاکستان ان سے ناخوش ہو سکتا ہے تو یہ خام خیالی ہے۔ افغان مہاجرین کی بے دخلی کے ذریعے افغان طالبان کا بازو مروڑنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ بھی ناکام رہی اور تلخیوں میں مزید اضافہ ہوا۔ افغانستان سے گرینڈ آپریشن کی توقع رکھنے والوں کو افغان طالبان کا جواب یہ تھا کہ وہ کالعدم تحریک طالبان اور پاکستانی حکومت کو مذاکرات کی میز پر تو بٹھا سکتے ہیں لیکن اس سے بڑھ کر مسئلے کو حل کرنا پاکستان کی ذمہ داری ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے کہ صورتحال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ گزشتہ 40 سے 50سال میں پاکستان سے افغانستان کی جانب عسکریت پسند رخ کیا کرتے تھے لیکن اب تاریخ کا پہیہ الٹا گھوم رہا ہے اور افغانستان سے عسکریت پسند پاکستان آ رہے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے بعد القاعدہ برصغیر نے خاموشی اختیار کر لی تھی۔ اب اس نے بھی اپنی توجہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور نئے بننے والے اتحاد الجماہدین کی جانب کر دی ہے۔ وہ تمام عسکریت پسند جو عالمی جہاد کا نعرہ لیے خاموش بیٹھے تھے، انہوں نے اب پاکستان کا رخ کر لیا ہے یہاں تک کہ افغانستان کے علاوہ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند بھی پاکستان آ کر لڑ رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں دہشتگردی کی وارداتوں میں تقریباً 70 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان کو ایک اور مشکل درپیش ہے کہ 25 سال گوریلا جنگ لڑنیوالے جنگجو اب سرکاری دفتروں میں بیٹھ کر صبح نو سے شام پانچ بجے تک شہری انتظامیہ کے معاملات کیسے چلائیں گے۔ اسی وجہ سے افغانستان میں لڑنےوالے کئی عسکریت پسند سرکاری سیٹ اپ میں مکمل طور پر فٹ نہیں ہو سکے اور انہیں کسی میدان جنگ کی تلاش ہے۔ افغان طالبان کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ ڈیورنڈ لائن کے دونوں جانب کی دو اہم شخصیات کمانڈر خلیل الرحمن حقانی اور مولانا حامد الحق حقانی دونوں داعش سے تعلق رکھنے والے خود کش حملہ آوروں کا نشانہ بنے۔ اس لیے بھی پاکستان کے دباؤ اور ناراضی کے باوجود افغان طالبان کالعدم تحریک طالبان پاکستان کیخلاف سخت ایکشن کے قائل نظر نہیں آتے کہ کچھ عسکریت پسند ناراض ہو کر اپنی طاقت داعش کی جھولی میں ڈال دیں اور اس سے ایک بار پھر افغان طالبان کو افغانستان میں ایک اندرونی جنگ اور بدامنی کا سامنا کرنا پڑ جائے۔اس صورت حال میں پاکستانی پالیسی سازوں کی حکمت عملی پر ماضی کی ایک مثال صادق آتی ہے کہ جب معروف عالم دین مولانا وحید الدین خان نے سید مودودی کی حکمت عملی کو تنقید کا نشانہ بنایا تو اس کتاب کا نام’’تعبیر کی غلطی‘‘رکھا۔ آج پاکستان کی افغانستان پالیسی کو دیکھتے ہوئے باآسانی یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی پالیسی ساز بھی تعبیر کی سنگین غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جسکی وجہ سے نقصان میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ مزید یہ کہ پاکستانی ریاست کیلئے ایک اور چیلنج یہ بھی ہے کہ خیبر پختون خوا میں ہونے والے 10 سے زائد فوجی آپریشنز کے بعد ہونے والی تباہی و بربادی، انتظامیہ کی نااہلی، کرپشن، ترقیاتی کاموں میں سست روی کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ جسکی وجہ سے دہشت گردی کیخلاف موجودہ جنگ میں خیبر پختون خوا کے عوام فریق نظر نہیں آتے اور وہ اس سارے معاملے سے لا تعلق ہیں جسکا براہ راست فائدہ کالعدم تحریک طالبان کو ہو رہا ہے۔ یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہاں صوبائی حکومت نہیں بلکہ عوام کا تذکرہ کیا جا رہا ہے۔ دہشت گردی کیخلاف کثیر الجہتی اور پائیدار پالیسی کی تشکیل سے پہلے ضروری ہے کہ عوام کی لاتعلقی کوحمایت میں بدلا جائے تاکہ جنگ جیتنے کی مضبوط بنیاد قائم ہو سکے۔تعبیر کی اس سنگین غلطی کے بعد ذمہ داروں کیخلاف کارروائی کی توقع تو خوش فہمی ہی نظر آتی ہے لیکن اسکے باوجود اب بھی صورتحال کو غیر جذباتی انداز میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جذباتی نعروںسے پرجوش عوامی بیانیہ تو بنایا جا سکتا ہے لیکن سچ کو نظر انداز کرنے سے حقائق اور انکے نتائج قطعاً تبدیل نہیں ہوتے۔