اسلام آباد( نمائندہ جنگ‘ایجنسیاں)ساتویں سارک وزرائے داخلہ کانفرنس اپنے تیسرے دور کے بعد اسلام آباد میں ختم ہوگئی‘ سیشن کے آغاز پر وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو کانفرنس کا نیا چیئرمین منتخب کر لیا گیا‘ کانفرنس کے دوران پاک بھارت وزرائے داخلہ کے درمیان سرد مہری برقرار رہی اور دونوں وزراء کے درمیان رسمی مسکراہٹ کا تبادلہ بھی نہیں ہوا،دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا عنصر کانفرنس میں بھی موجود رہا‘ جنوبی ایشیا کے متحارب نیو کلیئر ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری سرد جنگ نے اس وقت ڈرامائی انداز میں نیا پہلو بدلاجب سارک وزرائے داخلہ کانفرنس کے ورکنگ سیشن میں افغانستان ، بنگلہ دیش اور بھارت کے مندوبین نے اکٹھے ہوکردہشت گردی کے حوالے سے پاکستان مخالف باتیں کیں،تاہم چوہدری نثارکے کرارے جواب پر راجناتھ سنگھ ناراض ہوگئے اور کانفرنس ادھوری چھوڑکروطن روانہ ہوگئے جہاں انہوں نے نئی دہلی میں وزیراعظم نریندرمودی سے ملاقات کی اورکانفرنس کی تفصیلات سے آگاہ کیا ۔ وطن واپسی کے بعدنئی دہلی میں میڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے راجناتھ سنگھ کا کہناتھاکہ وہ آج جمعہ کو دورہ پاکستان کے حوالے سے پارلیمنٹ کو حقائق بتائیں گے۔ تفصیلات کے مطابق سارک وزرائے داخلہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بنگلہ دیشی سیکریٹری داخلہ نے کہاکہ گزشتہ دوسال میں بنگلہ دیش میں اقلیتوں ‘غیر ملکیوں اور سرکاری حکام پر کئی دہشت گرد حملے کئے گئے ‘اس میں 7جولائی کا واقعہ بھی شامل ہےجب ڈھاکامیں ریسٹورنٹ پر دہشت گردوں نے دھاوابولا ‘ان حملوں کا مقصد بنگلہ دیش کو غیرمستحکم کرنا اور اس کی ترقی کو روکنا ہے ‘ سفاک دہشت گردہمارے لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس اورخوف پیداکرناچاہتے ہیںاور بنگلہ دیش کا امیج خراب کرنے کے درپے ہیں‘شیخ حسینہ واجد کی حکومت نے ان حملوں کا بھرپورجواب دیاہےاور ایسے واقعات کا اعادہ روکنے کیلئے ملک بھرمیں سخت سکیورٹی انتظامات کئے گئے ہیں‘سکیورٹی فورسزہائی الرٹ ہیں‘حکومت دہشت گردی ‘انتہاپسندی اور بنیادپرستی کا گٹھ جوڑ توڑنے کیلئے پرعزم ہے‘ہماری انٹیلی جنس ایجنسیاں ان حملوں کے ماسٹرمائنڈزکا پتہ لگانے کیلئے کوشاں ہیں‘افغانستان کے نائب وزیرداخلہ نے اپنے خطاب میں کہاکہ ان کا ملک کرپشن اور منشیات کی اسمگلنگ پر قابو پانے کیلئے پرعزم ہے‘کرپشن اوردہشت گردی کے خلاف کارروائی حکومت کی اولین ترجیح ہے۔اپنے خطاب میںبھارتی وزیرداخلہ راجناتھ سنگھ نے پاکستان کا نام لئے بغیر کہاکہ کہاکہ کسی ایک ملک کا دہشت گرد کسی دوسرے ملک کیلئے شہیدیاحریت پسندنہیں بنناچاہئے‘ دہشت گرد انہ حملوں کی مذمت ہی کافی نہیں اس ناسور کے خاتمے کیلئے پختہ عزم اورسنجیدہ اقدامات کرناہونگے‘اچھے اوربرے دہشت گردوں کے درمیان فرق گمراہ کن ہے دہشت گردی کی حمایت یا حوصلہ افزائی کرنےوالوں کےخلاف فوری اور موثر کارروائی کرنے کی ضرورت ہے خواہ وہ ریاستی عناصر ہوں یا غیر ریاستی عناصر‘یہ امر یقینی بناناہوگا کہ کوئی ریاست دہشت گردی کو سراہے نہ اس کی سرپرستی کرے ‘دہشت گردی سب سے بڑا چیلنج اور امن کیلئے خطرہ ہے جس سے جنوبی ایشیاءکا خطہ بری طرح متاثرہوا ہے جس کا ثبوت پٹھان کوٹ ، ڈھاکہ ، کابل اور دوسرے مقامات پر حال ہی میں ہونے والے دہشت گردی کے بزدلانہ حملے ہیں‘ انہوں نے کہاکہ وہ صرف بھارت یا سارک رکن ملکوں کو نہیں بلکہ پوری انسانیت پر زور دیتے ہیں کہ کسی بھی طرح کے حالات میں دہشت گردوں کو شہید قرار نہ دیا جائے اور جو دہشت گردی یا دہشت گردوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرتے ہیں یا محفوظ ٹھکانے فراہم کرتے ہیں یا کسی طرح کی مدد کرتے ہیں ان کوبھی تنہا کرناہوگا ‘ بھارتی وزیرداخلہ کی تقریرکے جواب کے لئے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر یہ سنسی خیزاعلان کیا کہ وہ کچھ دیر کے لئے اجلاس کی صدارت چھوڑ رہے ہیں۔ یہ کہہ کر وہ ڈائس سے نیچے اپنی نشست پر آگئے اور بھارت، افغانستان اور بنگلہ دیش کے مندوبین کی پاکستان پر الزام تراشیوں کا فی البدیہہ اور موثر جواب دیا ، سارک کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی صدر نشین اپنی نشست چھوڑ کر مندوبین کے مابین آیا اور تقریر کی‘ اس وقت کانفرنس میں مکمل سکوت طاری ہوگیا اور چوہدری نثار علی خان نے سیکرٹری داخلہ کی بجائے خود’’ کنٹری اسٹیٹمنٹ‘‘ پیش کیا۔ وزیر داخلہ نے کشمیر کی حالیہ صورتحال اور وہاں ہونے والے بھارتی فوج کے مظالم کے حوالے سے کہا کہ آزادی کی جدوجہد اور دہشت گردی میں واضح فرق ہے اور معصوم بچوں اور شہریوں پر وحشیانہ تشدد دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے‘ ان کا کہنا تھا کہ الزامات کی روش سے کسی کو کچھ نہیں ملا، با مقصد مذاکرات سے معاملات حل کرنے کا وقت آگیا ہے‘پٹھانکوٹ، کابل، ممبئی، ڈھاکہ دھماکوں کی طرح پاکستان میں دہشتگردی سے سینکڑوں معصوم جانیں ضائع ہوئیں ‘ ہمیں انتہا پسند انہ سوچ کا خاتمہ کرنا ہے‘پاکستان تمام ممالک کے ساتھ غیرمشروط مذاکرات کیلئے تیار ہے‘موقف میں لچک پیدا کیے بغیر خطے کے مسائل کا حل اور قیام امن کی خواہش کی تکمیل ممکن نہیں‘پاکستان اور اس کے ہمسایہ ممالک کو ایک دوسرے سے تحفظات ہو سکتے ہیں لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ مل بیٹھ کر تمام مسائل کا حل تلاش کیا جائے ۔ پاکستان نے کبھی بھی ’اچھے اور برے طالبان‘ میں فرق نہیں کیا اور ایسے تمام عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جارہی ہے‘پاکستان میں دہشت گردی سرحد پار سے ہو رہی ہے ‘امن کیلئے مذاکرات کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔قبل ازیں افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثارنےکہاکہ آرمی پبلک اسکول پشاور، چارسدہ دھماکے، اقبال پارک لاہور جیسے واقعات دنیا کے سامنے ہیں‘پاکستان کے اندورنی معاملات میں ڈھٹائی کے ساتھ مداخلت کی جا رہی ہے‘سمجھوتہ ایکسپریس واقعہ کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لایا جائے‘ آئی این پی کے مطابق بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے کہا ہے کہ اپنے دورہ پاکستان کے حوالے سے (آج )جمعہ کو پارلیمنٹ کو حقائق سے آگاہ کریں گے‘بھارتی میڈیا کے مطابق راجناتھ سنگھ نے اسلام آبادمیں سارک وزراءداخلہ کانفرنس میں شرکت کے بعد وطن واپس پہنچنے کے فوری بعد وزیراعظم نریندرمودی سے ملاقات کی اور پاکستان کے رویے کی شکایت کی‘ راجناتھ سنگھ وطن واپس پہنچتے ہی ائیرپورٹ سے سیدھے نریندرمودی سے ملاقات کرنے کیلئے روانہ ہوئے اور ان سے مل کر اپنے دورہ پاکستان کے حوالے سے آگاہ کیا۔دریں اثناء سارک وزرائے داخلہ کانفرنس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثارنے کہاکہ سارک کانفرنس میں پاکستان کے مفاد اور مؤقف کی بات کی‘ کوئی ملک دہشتگردی کی آڑ میں آزادی کی تحریک کو کچلنے کی کوشش نہ کرے، بھارتی وزیر داخلہ نے باتوں باتوں میں نام لیے بغیر پاکستان پر تنقید کی‘سارک کانفرنس میں مجموعی طور پر ماحول اچھا رہا اور بطور میزبان پاکستان کا رویہ بہت اچھا تھا، انہوں نے کہا کہ اجلاس میں سیاسی بیانات آئے نہ صرف بھارت بلکہ ایک اور ملک کی جانب سے بھی سیاست کا عنصر موجود تھا، کانفرنس میں ان لوگوں نے نام نہیں لیا مگر اشارہ پاکستان کی جانب تھا، نام لے کر کہا گیا کہ ممبئی پٹھانکوٹ اور ڈھاکہ میں دہشتگردی ہوئی اس لیے ریکارڈ درست کرنے کے لیے میں نے خطاب کیا میں نے بھرپور انداز میں پاکستان کی نمائندگی کی۔