• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آخر کار چاندنی کی ٹانگ کاٹنی پڑ گئی کہ اب زہر پورے جسم میں سرایت کر رہا تھا۔ اس اونٹنی کا بس اتنا قصور تھا کہ وہ کسی کھیت میں گھس گئی تھی۔ کھیت کا مالک اس قدر غضب ناک ہوا کہ کلہاڑی لے کر اس پر ٹوٹ پڑا۔ اس کا قہر تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہ لے رہا تھا۔ اونٹنی کو ٹریکٹر سے باندھ کر گھسیٹنا شروع کر دیا۔ باقی چوٹیں تو ایک طرف، اس کی ایک ٹانگ اور جبڑا ٹوٹ گیا، زبان جل گئی۔ بات میڈیا کے توسط سے پھیلی تو حکومتی سطح پر اس کے علاج کی چارہ گری شروع ہو گئی۔ آپریشن ہوا، ٹانگ کٹ گئی اورجبڑے میں کئی پِنیں پیوست کرنا پڑیں۔ ابھی کھانے پینے کے قابل نہیں، ہاں ہر کچھ دیر بعد درد کے مارے اس کے جسم میں ایک جھرجھری، اور سانس میں ایک سسکی ضرور نظر آتی ہے۔ زمین پر پڑی اس معصوم کی نمناک آنکھوں میں البتہ کسی بھی انسان کو دیکھ کر دہشت کی پرچھائیاں لپک جاتی ہیں۔ سننے میں آیا ہے اس کا پہلے نام سومی تھا، اس واقعہ کے بعد کسی نے چاندنی رکھ دیا ہے۔ اچھا مذاق ہے، زیادہ برمحل ہو تا اگر تاریکی یاتیرگی رکھ دیتے!

یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے نہ ہی آخری ہوگا۔ دو ماہ قبل بھی ظلم کی ایک ایسی ہی داستان رقم ہو ئی تھی۔ سا نگھڑ میں ایک وڈیرے کی زمینوں میں ایک اونٹنی کیا داخل ہو گئی، وہ اس قدر طیش میں آیا کہ جیتی جاگتی کی ٹانگ کاٹ کر ہی رکھ دی۔ ٹانگ کٹی، سسکتی، بلبلاتی، آنسو بہاتی اونٹنی کی تصویر دنیا بھر کے لوگوں نے دیکھی اور دنگ رہ گئے کہ انسانیت اس حد تک بھی گر سکتی ہے۔ یہاں ایک لمحہ عنایت کیجیے گا، اونٹنی کی جگہ خود کو رکھ کر سوچیے گا تو شاید صحیح طور پر جان سکیں گے کہ اس بے زبان کو کس کرب سے گزرنا پڑا۔اونٹ اپنی جسامت کے برعکس نہایت شریف النفس جانور تصور کیے جاتے ہیں۔ صدیوں سے انسان انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے آ رہے ہیں اور یہ اونٹ سر جھکائے ان کی خدمت پر مامورہتے ہیں۔ محمد عربی ﷺ کے بھی محبوب ترین جانوروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ ایک دفعہ ایک اونٹ آپ کو دیکھ کر بلبلانے اور آنسوؤں سے رونے لگا ۔ آپ نے اسے پیار سے سہلایا تو وہ شانت ہو گیا۔ پھر اس کے مالک سے پوچھا، ’’کیا تو اس جانور کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتا جس کا اس نے تجھ کو مالک بنایا ہے؟ اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اسے بھوکا رکھتا اور بہت تھکاتا ہے‘‘۔ کہاں بھوکا رکھنے اور تھکانے پر خدا سے ڈرایا جا رہا تھا اور کہاں یہ عالم ہے کہ ہم کلہاڑیاں لے کر ان پر حملہ آور ہی ہو جاتے ہیں۔

اقوامِ عالم میں ہمارا سر پہلے ہی جھکا رہتا ہے، اگر سوچیں تو مزید چھاتی سے جا لگا ہے۔ دنیا والے یہ بھی سوچتے ہوں گے کہ اس ملک میں کوئی جزا سزا کا نظام بھی موجود ہے کہ نہیں، اور پھر یہ کہ نظام موثر ہے کہ طاقتور افراد!سنا ہے میڈیا میں خبر وائرل ہو جانے پر قانون حرکت میں آ گیا تھا اور کچھ گرفتاریاں بھی ہوئی ہیں، فکر مگر اس بات کی ہے کہ ملکِ عزیز میں تو بریکنگ نیوز اس تواتر سے آتی ہیں کہ جلد ہی یہ خبر ہماری یادداشتوں سے محو ہوجائے گی۔ سوموٹو تو دور کی بات، بس کسی روز ملزمان ضمانت پر رہا ہو جائیں گے اور قصہ ختم۔ اونٹ بے چارے تو سوشل میڈیا پر کوئی ٹرینڈ بھی نہ چلا پائیں گے۔ اب اس کا سرسری ذکر اسی وقت آئے گا جب خاکم بدہن اس سے بھی زیادہ وحشت ناک واقعہ وقوع پذیر ہو گا۔یار لوگ یہ دور کی کوڑی بھی لے آئیں گے کہ ہم جیسے معاشروں میں تو انسانوں کا کوئی پرسان ِحال نہیں ہوتا، تم اونٹ کا رونا رو رہے ہو۔ تو کیا جب تک انسانوں کے مسائل نہیں سلجھیں گے، جب چاہیں کسی جانور پر کلہاڑیاں لے کر چڑھ دوڑا کریں؟

ہمیں اپنے رویوں پر انتہائی سنجیدگی سے نظرثانی کرنا ہوگی۔ اگر حکومت نہیں تو دیگر خدا ترس ادارے اور افراد آگے آئیں اور کھوج لگائیں کہ کیا عوامل ہیں کہ معاشرے میں عدم برداشت ہے کہ بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ درسگاہوں کے نصاب کو بھی کھنگالیں کہ کہیں ان میں کچھ ایسا تو نہیں یا کوئی ایسی کمی تو نہیں جو یہ رویے پنپ رہے ہیں۔ ریاستی اور عدالتی نظام پر بھی تحقیق کریں کہ کیا وجہ ہے لوگ دن دہاڑے ایسے جرائم کرتے ہیں اور پھر معاشرے میں دندناتے بھی پھرتے ہیں۔

اس ساری صورتحال میں ایک امربہرحال مسلمہ ہے۔ اگر سانگھڑ کے مجرموں کو قرار واقعی سزا مل گئی ہوتی تو سکھر کا واقعہ وقوع پذیر نہ ہوتا۔ چلیےاب اس نئے واقعے کو ہی مثال بنا لیجیے۔ پولیس جانفشانی سے تحقیقات کرے، حکومت تہہ دل سے مقدمے کی پیروی کرے، عدالتیں روزانہ کی بنیاد پر سماعت کریں، اور میڈیا تمام کارروائی کی بھرپور کوریج کرے۔ ملک کے طول عرض میں بچے بچے تک یہ خبر پہنچ جائے کہ جب ایک اونٹنی پر ظلم ہوا تھا تو پورا معاشرہ حرکت میں آ گیا تھا اور مجرموں کو عبرت ناک سزاسے دوچار ہونا پڑا تھا۔ آئندہ جب بھی کسی بے زبان پر وار کرنے کے لیے کوئی کلہاڑی کو بلند کرے تو سزا کا خوف اسے جکڑ لے۔ صوبے کے منصف اعلیٰ یا ملک کے منصف اعظم کی نظر سے اس خبر کا گزر ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر ایک جانور کیلئے بھی سوموٹو لے لیا جائے۔ محاسبہ کیا جائے کہ پچھلے مقدمے پر کیا پیش رفت ہوئی؟ اب کیا ارادے ہیں؟بچپن میں ایک محاورہ پڑھا کرتے تھے، اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی۔ کیا معلوم کسی روز اونٹ ہمارے جیسے انسانوں سے ہی پوچھ بیٹھیں، پہلے تُو بتا تیری کون سی کل سیدھی!

تازہ ترین