آزاد جموں و کشمیر میں جو کچھ ہوا وہ پہلے کبھی نہیں ہوا اور نہ ہونا چاہئے تھا۔ ماضی میں اقتدار کیلئے سیاسی پارٹیوں اور گروہوں میں رسہ کشی ہوتی رہی ہے۔ آپادھاپی بھی ہوئی مگر اس مرتبہ حکومت کے سامنے جموں و کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کھڑی ہے جو بظاہر غیر سیاسی تنظیم ہے۔ ایکشن کمیٹی اس سے پہلے دو مرتبہ اپنے مطالبات کے حق میں کامیاب ہڑتالیں کراچکی ہے مگر وہ غیر سیاسی نوعیت کی تھیں۔ اس مرتبہ کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں سیاسی مطالبات بھی ہیں۔ کمیٹی کے رہنماؤں کو مذاکرات کیلئے آزادکشمیر حکومت نے مظفر آباد بلایا تو وفاقی حکومت نےبھی اپنے دو وزراء، وزیر امور کشمیر امیر مقام اور وزیر پارلیمانی امور چوہدری طارق فضل کو ضامن کے طور پر بھیج دیا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے کمیٹی کے 90؍فیصد مطالبات تسلیم کرلئے مگر منظوری کا نوٹی فکیشن جاری نہ کرکے ابہام پیدا کردیاگیا۔ اس کے علاوہ آزادکشمیر اسمبلی میں مہاجرین جموں و کشمیر کی 12؍ نشستوں کے خاتمے اور کابینہ کے وزراء کی تعداد کم کرنے کے مطالبات موخر کرکے معاملے کو مزید الجھا دیاگیا۔
حکومت کا اس بارے میں موقف ہے کہ یہ اس کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں اس کیلئے آزاد کشمیر ایکٹ میں آئینی ترمیم کرنا پڑے گی جو اسمبلی کا کام ہے۔ بات یہیں ختم نہیںہوئی، ایکشن کمیٹی نے 29؍ اگست سے پورے آزاد علاقے میں شٹر ڈاؤن کا اعلان کر رکھا تھا جسے ناکام بنانے کیلئے اسلام آباد سے وفاقی پولیس طلب کی گئی، زبردست حفاظتی اقدامات کئے گئے، دھمکی دی گئی کہ حکومت اپنی رٹ ہر قیمت پر برقرار رکھے گی، پکڑ دھکڑ بھی شروع ہوگئی، بیرونی دنیا سے مواصلاتی رابطے منقطع کردیئے گئے،مظاہرین نے سڑکیں اور پل بند کرکے ہر قسم کی ٹریفک روک دی اورپولیس سے ان کی جھڑپیں شروع ہوگئیںجن میں تین پولیس والے اور 6؍ شہری جاں بحق ہوگئے۔ ان واقعات سے ،جن کی ذمہ داری دونوں فریق ایک دوسرے پر ڈالتے ہیں ،صورتحال مزید بگڑ گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ راولا کوٹ، ڈڈیال اور بعض دوسرے مقامات پر مظاہرین نے حملے شروع کردیئے، بعض لوگ پہاڑوں پر چڑھ گئے اور وہاں سے پولیس پر فائرنگ کی جس سے اموات کے علاوہ ڈیڑھ سو سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے ان میں 12؍ کی حالت نازک بیان کی جاتی ہے۔ مظاہرین کا موقف ہے کہ ہڑتال پرامن تھی۔
پولیس نے مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کی جس سے جانی نقصان ہوا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جو اس موقع پر ملک سے باہر تھے صورتحال کا فوری نوٹس لیا اور پیپلزپارٹی کے رہنما سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی قیادت میں ایک وفد کوجس میں بعض وفاقی وزراء اور دوسرے لیڈر بھی شامل تھے فوری طور پر مظفرآباد پہنچنے، ایکشن کمیٹی کے ساتھ مذاکرات میں شریک ہونے اور صورتحال سنبھالنے کی ہدایت کی۔ انہوں نے اپنے پیغام میں بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے اور تحمل اختیار کرنے پر زور دیا، یہ بھی کہا کہ مذاکراتی عمل کی وہ خود نگرانی کریں گے۔ وزیراعظم نے آزاد کشمیر میں وقوع پذیر ہونے والے ناخوشگوار واقعات کی تحقیقات کا بھی حکم دیا۔ آزاد کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوارالحق نے بھی کہا ہے کہ مظاہرین کے تمام جائز مطالبات تسلیم کرچکے ہیں۔ ایکشن کمیٹی مظفرآباد، راولاکوٹ یا کوٹلی، جہاں چاہے حکومت اس سے مذاکرات کیلئے تیار ہے۔ جن لوگوں کے خلاف مقدمات درج ہوئے تھے وہ واپس لے لئے گئے ہیں، بجلی کےحوالے سے مسائل بھی حل ہوگئے ہیں،جبکہ باقی مسائل بھی حل ہوجائیں گے۔
جموں و کشمیر 85ہزارمربع میل کا ایک خود مختار ملک تھا پہلے ہندو اور بعد میں مسلمان حکمرانوں نے خلیج بنگال سے بحرہند اور سمرقند و بخارا سے کاشغر تک وسطی ایشیا کے علاقوں کو فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ اس وقت ہندوستان نام کا کوئی ملک دنیا کے نقشے پر موجود نہیں تھا۔ یہ تاریخ کا جبر ہے کہ پہلے تاتاریوں، پھر مغلوں، افغانوں، سکھوں اور پھرانگریزوں نے طاقت کے زور سے اس ملک پر قبضہ کیا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے 53ہزار مربع میل علاقے کو ہتھیا لیا جبکہ گلگت بلتستان کے 28ہزار مربع میل اور آزاد کشمیر کے ساڑھے چار ہزار مربع میل سے زائد علاقے حریت پسندوں نے آزاد کرالئے۔ آزاد کشمیر اس لحاظ سے ایک حساس علاقہ ہے یہاں کے لوگ آپس میں امن و آشتی سے رہ رہے ہیں۔ بھارتی فوج کی فائرنگ اور گولہ باری کی زد میں ہونے کی وجہ سے یہ ایک حساس علاقہ ہے۔ علاقے کے لوگ بے پناہ مسائل و مشکلات کے باوجود ہنگاموں، مظاہروں اور ایجی ٹیشن سے دور رہتے ہیںیہ کام سیاسی پارٹیوں کا ہےکہ ان کے شہری حقوق کی بھی حفاظت کریں ابتدا میں ان کی توجہ تحریک آزادی پر مرکوز تھی مگر اب اقتدار کے حصول پر ہے۔ ایجی ٹیشن کے ذریعے ایکشن کمیٹی جو مقاصدحاصل کرنا چاہتی ہے وہ سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری تھے۔ مگر عوامی مسائل سے زیادہ ان کی توجہ سیاسی اقتدار تک محدود ہے۔ یہ سیاسی پارٹیوں کی ناکامی ہے کہ ایک غیر سیاسی تنظیم عوامی مفاد کے معاملات یکسو کرانے کے لئے سرگرم عمل ہے۔ اور سیاسی پارٹیاں فریق بن کر اسے تحمل و بردباری کا درس دے رہی ہیں۔ وزیراعظم پاکستان نے اس حساس خطے کے امن و امان اور فلاح و ترقی کی خاطر خود مداخلت کرکے حالات کو کنٹرول کرنے کا معاملہ اپنے ذمے لیا ہے۔ ایکشن کمیٹی کو اگر سیاست نہیں کرنی تو اپنے مطالبات کو معاملہ فہمی اور دوراندیشی سے حل کرانے کی کوشش کرے اور کنٹرول لائن کے دوسری طرف موجود دشمن کو فائدہ نہ اٹھانے دے۔ آزاد کشمیر کو بے چینی اور بدامنی کے خطرات سے باہر نکال کر عوامی حقوق اور تعمیر و ترقی کے اقدامات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور یہ ذمہ داری پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتوں کے علاوہ سیاسی پارٹیوں اور شہری تنظیموں کی بھی ہے۔