یروشلم کی فضا میں صدیوں کی خاموشی دفن ہے۔ وہ پتھر جن پر پیغمبروں جیسی مقدس شخصیات رب کےحضور سجدہ ریزہوئیں ، آج شہداء کے خون سے تر ہیں۔ دیوارِ گریہ پر رونے والی آنکھیں صدیوں کے دکھ سناتی ہیں، اور مسجد اقصیٰ کی محرابوں میں وہی اذانیں گونج رہی ہیں جو کبھی حضرت بلالؓ نے بلند کی تھیں۔
فلسطین کا ذکر ہو اور دل کانپ نہ اٹھے، یہ ممکن نہیں۔ یہ وہ زمین ہے جہاں آسمان نے وحی اتاری، جہاں حضرت ابراہیمؑ نے اپنے بیٹے کو قربان کرنے کی تیاری کی، جہاں حضرت موسیٰؑ نے اپنی قوم کو آزادی دلائی، جہاں حضرت عیسیٰؑ نے محبت اور ایثار کی تعلیم دی، اور جہاں سے اللہ کے محبوب حضرت محمد ﷺ معراج کے سفر پر روانہ ہوئے۔
ارض فلسطین زمین کا ایک ٹکڑا نہیں، یہ گویا تاریخ اور تقدیر کا سنگم ہے۔ فلسطین دنیا کا وہ آئینہ ہے جس میں طاقتوروں کا غرور اور مظلوموں کی آہیں صاف نظر آتی ہیں۔ یہاں کی خاک بتاتی ہے کہ وقت کے فرعون، نمرود اور ہامان گزر جاتے ہیں، لیکن مظلوم کا خون زمین پر ہمیشہ اپنی تحریر رقم کرتا رہتا ہے۔جسےمٹاناناممکن ہے۔
فلسطین کا ذکر تاریخ کی قدیم ترین کتابوں میں ملتا ہے۔ یہ خطہ کنعانیوں کی سرزمین تھا، پھر یہاں عبرانی آئے، آسمانی صحیفے نازل ہوئے، سلیمان علیہ السلام کا معبد بنا۔ بعدازاں رومی آئے، پھر صلیبی جنگوں نے اس سرزمین کو بار بار لہو میں نہلایا۔ ساتویں صدی میں اسلام کا سورج طلوع ہوا اور خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں بیت المقدس مسلمانوں کے زیرِ سایہ آیا۔ صدیوں تک یہ شہر مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان ایک مقدس مرکز رہا۔لیکن بیسویں صدی میں برطانوی سامراج نے’’بالفور ڈیکلیریشن‘‘کے ذریعے فلسطین کے قلب میں اسرائیل کا خنجر گھونپ دیا۔ لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوئے، ان کی بستیاں اجڑیں، اور وہ پناہ گزین کیمپوں میں دھکیل دیے گئے۔ 1948ء سے لے کر آج تک یہ زخم کبھی نہیں بھرا۔ ہر جنگ، ہر حملہ، اور بمباری فلسطینی سرزمین پر ایک اور کربلا کادردناک اورالمناک منظرپیش کرتی ہے۔ 23 ستمبر 2025ء، دنیا کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ فرانس کے فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کے بعد بلجیم، کینیڈا اور پرتگال بھی قافلے میں شامل ہو گئے۔ لندن میں فلسطینی مشن کو سفارتخانے کا درجہ دیا گیا اور فلسطینی پرچم لہرانے لگا۔ یہ سفارتی فیصلے نہیں بلکہ یہ مظلوموں کے حق میں تاریخ کی دستک ہے۔ مسٹر ٹرمپ نےجب کہاکہ یہ ’’فلسطین کوتسلیم کرناتو حماس کو انعام دینےکے مترادف ہے تو اس کے جواب میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیریس نے ایک تاریخی جملہ کہا ’فلسطینیوں کے لیے ریاست کا قیام انعام نہیں، حق ہے‘۔ یہ الفاظ محض بیان نہیں، یہ ان صدیوں کی آہوں سسکیوں اور بے جرم انسانوں کے خون کی بہتی ندیوںکا جواب ہیں جو غزہ کے کھنڈرات میں دفن ہیں۔ سعودی عرب نے فرانس کے فیصلے پر شکریہ ادا کر کے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ مسلم امہ اب بیدار ہو رہی ہے۔
تاہم دوسری طرف امریکہ اور اسرائیل اب بھی ضد اور تکبر میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ وائٹ ہاؤس نے فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کو ’’حماس کے لیے انعام‘‘قرار دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آزادی کبھی کسی کے لیے انعام ہو سکتی ہے؟ کیا ظلم سے نجات کسی گروہ کی ملکیت ہے؟ نہیں، یہ حق ہے، اور حق کو دبایا جا سکتا ہے، ختم نہیں کیا جا سکتا۔
غزہ کے ملبے تلے دبی ہوئی لاشیں، اپنے بچوں کے کفن کو چومتی مائیں، معذور ہو چکے جوان اور تباہ حال اسکول اور ہسپتال ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ فلسطین صرف ایک جغرافیائی تنازع نہیں، یہ انسانیت کا سب سے بڑا امتحان ہے۔ وہ معصوم بچی جو اسکول بیگ کے بجائے کفن میں لپیٹ دی گئی، وہ ماں جو اپنی بکھری ہڈیاں اٹھا کر بھی ’لبیک یا اقصیٰ‘کا نعرہ لگاتی ہے، وہ سب گواہی دے رہے ہیں کہ طاقت کا غرور کبھی دائمی نہیں۔
دنیا بدل رہی ہے۔ وہ اقوام جو کل تک خاموش تھیں، اب آواز اٹھا رہی ہیں۔ بلجیم، کینیڈا، پرتگال اور فرانس کے فیصلے صرف شروعات ہیں۔ جب عالمی رائے عامہ کسی سمت چل پڑے تو پھر طاقت کے ایوان خالی ہو جاتے ہیں۔ امریکہ اور اسرائیل آج بھی سمجھتے ہیں کہ ویٹو ان کی ڈھال ہے، لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ رائے عامہ کسی ویٹو کو نہیں مانتی۔
طاقت ہمیشہ باہر سے نہیں ٹوٹتی، یہ اندر سے کھوکھلی ہو کر گرتی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل بھی اپنی ہٹ دھرمی اور ظلم کے بوجھ تلے دب کر تنہا ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر ان کاطرز عمل یہی رہا تو کہاجاسکتا ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ان کے سفارت خانے سنسان اور ان کی پالیسی کتابوں میں محض فٹ نوٹ بن کر رہ جائیں گے۔
یہ سوال دنیاکے ہرذی شعور کے ذہن میں اٹھ رہاہےکہ کیا امریکہ اور اسرائیل وقت کے بدلتے رخ کو سمجھ کر انصاف کے قافلے میں شامل ہوں گے یا پھر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیے جائیں گے؟ گھڑی کی سوئیاں اب فلسطین کے حق میں چل رہی ہیں۔ وہ دن قریب ہیں جب مسجد اقصیٰ کے میناروں سے پھر آزادی کی اذان بلند ہوگی، جب زیتون کا درخت اپنی شاخوں میں امن کی فاختہ سجا کر گواہی دے گا کہ زمین کسی کا بوجھ ہمیشہ نہیں اٹھاتی۔