• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں غالب پر کوئی اتھارٹی تو نہیں ہوں لیکن اِس عظیم شاعر سے متعلق جو دو چار کتابیں میں نے پڑھی ہیں۔ اُن سے یہی نتیجہ اخذ کیا ہے کہ غالب سے پہلے اردو شاعری میں محبوب کی منتیں ترلے کیے جاتے تھے، غالب نے یہ روایت توڑی اور محبوب کو ٹف ٹائم دینا شروع کیا۔ کوئی شک نہیں کہ محبوب کے ناز نخرے غالب نے بھی اٹھائے، اُس کی خاطر دل چیر کے دکھایا، گریبان چاک کیا، مگر ساتھ ہی کہیں نہ کہیں اُسے طعنے بھی دیے، فلرٹ بھی کیا اور معشوق کے ہوتے ہوئے دیگر نازنینوں سے آنکھیں بھی لڑائیں۔ اردو شاعری میں یہ انداز غالباََ نیا تھا اور اگر نیا نہیں بھی تھا تو غالب نے اِسے ایک انتہا درجے پر پہنچا دیا جس کی نظیر شاید پہلے موجود نہیں تھی۔ اُن کی مشہور غزل سے شروع کرتے ہیں جس کے پہلے شعر میں فرماتے ہیں ”مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے، جوش قدح سے بزم چراغاں کیے ہوئے“۔ غلام رسول مہر نے اِس شعر کی تشریح یوں کی ہے کہ محبوب کو مہمان بنائے ہوئے مدت ہو گئی، جب وہ پچھلی مرتبہ آیا تھا اور میرے ہاں ٹھہرا تھا تو شراب کے پیالوں میں اتنا جوش پیدا ہو گیا تھا کہ پوری بزم نے چراغاں کی حیثیت اختیار کر لی تھی۔ کچھ شارحین نے اِس شعر میں صرف شراب کے فضائل بیان کیے ہیں جبکہ اصل بیان یہ ہے کہ محبوب نے کم ازکم ’ون نائٹ سٹے‘ کیا تھا جسے غالب یاد کر رہے ہیں، اُن کے ہمعصر شعرا کو تو حسرت ہی رہی ایسے کسی وصال کی! مگر اِسی غزل میں آگے چل کر یکدم غالب فلرٹ کے موڈ میں آ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ”اِک نو بہار ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ، چہرہ فروغ مئے سے گلستاں کیے ہوئے۔“ یعنی اب میں کسی ناز نخرے والے محبوب کی تلاش میں ہوں جو ڈرنک کرے تو اُس کے چہرے پر رنگینی اور سُرخی دوڑ جائے۔ ویسے میری نظر میں اِس شعر کی تشریح یوں بھی ہو سکتی ہے کہ شراب کے نشے سے میرا اپنا چہرہ گلستاں کی طرح رنگیں اور سُرخ ہو گیا ہے جس کے بعد میں اب ویسی ہی نو بہار ناز کو ڈھونڈ رہا ہوں۔ نہ جانے کیوں شارحین اِس تشریح سے اتفاق نہیں کرتے۔

غالب اپنے محبوب کے بارے میں شکی مزاج بھی ہیں، شعر دیکھیں:”صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خُو، دینے لگا ہے بوسہ بغیر التجا کیے۔“ ویسے اگر یہاں بوسہ کی جگہ بوسے ہوتا تو زیادہ بہتر ہوتا لیکن وہ دوسری بات ہے، اصل مسئلہ غالب کا شک کرنا ہے، غالب جیسے عالی ظرف کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ محبوب پر شک کرے، شاید اِس شعر کے بعد غالب کو خود بھی احساس ہو گیا اِسی لیے فوراً ہی اگلے شعر میں جناب نے یو ٹرن لیا اور کہا ”ضد کی ہے اور بات مگر خُو بری نہیں، بھولے سے اُس نے سینکڑوں وعدے وفا کیے۔“ مطلب یہ ہے کہ میرا محبوب ضدی ہے مگر عادت کا برا نہیں، اگر عادت کا برا ہوتا تو بھول چُوک میں بھی وعدے پورے نہ کرتا، اور ظاہر ہے کہ یہ وعدے وہی ہیں جن کا ذکر اوپر کے شعر میں آ چکا ہے۔ اور ایک شعر میں تو غالب لڑنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں: ”کیا خوب تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا، بس چُپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے۔“ چلیے یہ تو بالکل ہی سامنے کا شعر تھا، غالب کی مشہور غزل کا وہ مطلع یاد کیجیے کہ ”ہے بسکہ ہر اک اُن کے اشارے میں نشاں اور، کرتے ہیں محبت تو گزرتا ہے گماں اور۔“ شارحین کے خیال میں اِس شعر میں محبوب محبت کا اظہار اِسلئے کرتا ہے کہ شاعر کی فریفتگی اور عشق کا حال دریافت کر سکے لیکن اِس عاجز کی رائے وہی ہے کہ غالب کو محبوب پر شک ہے، لفظ ’گماں اور‘ پر توجہ کیجیے، معشوق محبت بھی کر رہا ہے تو غالب کو گمان ہے کہ اِس کے پیچھے دراصل رقیب کے ساتھ گزاری ہوئی رات ہے جس کی وجہ سے محبوب کا موڈ اچھا ہے (خدا میرے گناہ معاف کرے)۔ اب بھی اگر کسی یار دوست کو غالب کے شکی مزاج ہونے میں شک ہو تو ملاحظہ کرے میرا پسندیدہ شعر: ”رات کے وقت مئے پیے ساتھ رقیب کو لیے، آئے وہ یاں خدا کرے پر نہ کرے خدا کہ یوں۔“ گویا غالب کو یقین ہے کہ ہو نہ ہو معشوق رات کو رقیب کے ساتھ ہی ہوگا اور دونوں نے مئے پی رکھی ہو گی اور وہ چہلیں کرتے ہوئے اُسے کسی نہ کسی محفل میں مل جائیں گے۔

اِن چند شعروں سے یہ تو ثابت ہو چکا کہ غالب فلرٹ بھی ہیں اور شکی مزاج بھی، محبوب اگر اُن کے دام میں نہ آئے تو مسئلہ اور اگر آ جائے تو اُس سے بڑا مسئلہ۔ اِس کے ساتھ ساتھ غالب کا ایک اور ’تضاد‘ بھی ہے کہ وہ معشوق کو رعایت بھی بہت دیتے ہیں، یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ غیر اُن کے محبوب کو گاہے گاہے تنگ کرتا رہتا ہے لیکن محبوب اُس سے راہ و رسم نہیں بڑھانا چاہتا۔ متعلقہ شعر ملاحظہ ہو: ”غیر کو یارب وہ کیوں کر منع گستاخی کرے، گر حیا بھی اُس کو آتی ہے تو شرما جائے ہے۔“ یہاں حیا سے مراد غیرت ہے، گویا میرے محبوب کو غیر کی گستاخیوں پر غیرت بھی آتی ہے مگر وہ اِس قدر معصوم ہے کہ شرما جاتا ہے اور غیر کو اُس کی بیہودگیوں پر نہیں ٹوکتا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ غالب کو رقیب پر غصہ ہے کہ وہ سُرخ لکیر کیوں عبور کرتا ہے اور اُس کے محبوب کے انکار کو انکار کیوں نہیں سمجھتا مگر شاعر کا اپنا حال یہ ہے کہ محبوب کے ساتھ ریپ کی کوشش کو بھی شاعرانہ رنگ دے رہا ہے: ”دھول دھپا اُس سراپا ناز کا شیوہ نہیں، ہم ہی کر بیٹھے تھے غالب! پیش دستی ایک دن۔“ ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ غالب اپنے رقیب کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں اور اُس کے ساتھ نوٹس بھی ایکسچینج کرتے رہتے ہیں۔ غالب نے ایک پورا قطعہ اِس باب میں لکھ مارا ہے جس کے دو شعر ہی فی الحال کافی ہیں: ”غیر یوں کرتا ہے میری پُرسِش اُس کے ہجر میں، بے تکلف دوست ہو جیسے کوئی غم خوارِ دوست۔ تاکہ میں جانوں کہ ہے اُس کی رسائی واں تلک، مجھ کو دیتا ہے پیامِ وعدہ دیدارِ دوست۔“ پس ثابت ہوا کہ عاشق اور رقیب کا مقصد ایک ہی ہے، محبوب کا قُرب حاصل کرنا (یہاں قُرب کئی معنوں میں استعمال ہواہے)، صرف طریقہ مختلف ہے، بالکل اُسی طرح جیسے فلم میں ولن کا طریقہ غلط ہو سکتا ہے مگر ہیروئن سے پیار وہ بھی بہت کرتا ہے!

تازہ ترین