• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں رات کی تاریکی ہو تو امریکہ اور یورپ کے بعض ممالک میں دن کا اجا لا ہوتا ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف جو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں سیشن سے خطاب کرنے کیلئے نیویارک گئے ہوئے تھے انہوں نے جہاںنیویارک میں دو غیر رسمی ملاقاتوں کے بعد واشنگٹن میں وائٹ ہائوس کے ’’اوول آفس‘‘ میں ( امریکی صدر کا سرکاری دفتر ) ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی وہاں انہیں عالمی لیڈروں بالخصوص اسلامی ممالک کے رہنمائوں سے ملاقاتوں کا موقع ملا۔ امریکی صدر سے ’’اوول آفس ‘‘ میں ملاقات کی خواہش بیشتر ممالک کے سربراہان کی خو ا ہش ہوتی ہے اور وہ اس مقصد کیلئے بڑے پاپڑ بیلتے ہیں ۔ اگرچہ وزیر اعظم شہباز شریف کا سرکاری دورہ امریکہ نہیں تھا لیکن وزیر اعظم شہباز شریف کی واشنگٹن میں وائٹ ہائوس آمد پر جس طرح آئو بھگت کی گئی اس سے یہی تاثر ملتا ہے جیسےوزیر اعظم شہباز شریف سرکاری دورے پرہی آئے تھے اور امریکی صدر نے وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف فیلڈ مارشل عاصم منیر کی’’ اوول آفس‘‘ آمد سے کچھ دیر قبل جس اشتیاق کا اظہار کیا وہ غیر معمولی نوعیت کاتھا۔امریکی صدر نے وزیر اعظم اور آرمی چیف سے ملاقات سے قبل اخبار نویسوںسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’ فیلڈ مارشل عاصم منیر بہترین شخصیت کے مالک ہیں، وزیر اعظم پاکستان بھی شاندار شخص ہیں دونوں ان سے آج ملاقات کیلئے آرہے ہیں ‘‘۔اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف واشنگٹن ڈی سی ایئرپورٹ پہنچے جہاں ان کا امریکی حکام نے ریڈکارپٹ استقبال کیا۔پاکستان میں پچھلے ایک سال سے مسلسل یہ پراپیگنڈا کیا جا رہا تھا ٹرمپ مسند صدارت سنبھالتے ہی پاکستان ایک ٹیلی فون کریں گے اور اڈیالہ جیل کے دروازے کھل جائیں گے۔ اس مقصد کیلئےامریکہ میں پی ٹی آئی کے مفرور لیڈروں نے امریکی انتظامیہ کو عمران خان کی رہائی کیلئے اپنا کر دار ادا کرنےکیلئے ہر ممکن دبائو ڈالا، لابیسٹ کے ذریعے ہر فورم کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن امریکہ سے عمران خان کی رہائی کیلئے کوئی سندیسہ آیا اور نہ ہی ٹرمپ کو یاد آیا ان کاکوئی دوست جیل میں ہے ۔ ایسا دکھائی دیتا ہے عمران خان کی رہائی کیلئے پی ٹی آئی کی قیادت نے امریکہ سے جو آخری امید قائم کر رکھی تھی وہ دم توڑ گئی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو پاکستان میں کسی خاص شخصیت کی رہائی اور اقتدار سے کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی بلکہ انکے پیش نظر قومی مفادا ت ہیں جنکی تکمیل کیلئے وہ دوسرے ممالک سے تعلقات استوار کرتےہیں۔ جی ایچ کیو اور پینٹا گان کے درمیان دوستی کا مطلب یہ کہ دونوں ملکوں کی عسکری قیادت خطے کے حوالے سے معاملات پر یکساں سوچ رکھتی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ امریکی حکام بلاوجہ کسی کو’’ اوول آفس‘‘ میں لنچ نہیں کراتےوہ یہ سب کچھ اپنے قومی مفادات کے پیش نظر کرتے ہیں جن کی تکمیل کیلئے اس ملک کی قیادت سے تعاون کا تقاضا کرتے ہیں ۔ امریکی صدر سے وزیر اعظم شہباز شریف کیـ’’اوول آفس‘‘ میں پہلی باضابطہ ملاقات پر پاکستان میں خوشی کے شادیانے اس لئےبجائے جا رہے ہیں کہ ٹرمپ نے نہ صرف وزیر اعظم اور آرمی چیف کو عظیم لیڈر قرار دیابلکہ شہباز شریف کی’’ اوول آفس‘‘میں ملاقات سے ان کی حکومت کو سند قبولیت مل گئی ہے شہباز شریف کی حکومت کو امریکیوں کی نظر میں گرانے کی پی ٹی آئی اسپانسرڈ مہم دم توڑ گئی ہے ۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ نواز شریف بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ لیڈر ہیں شہباز شریف کو ان کا مقام حاصل کرنے میں کچھ وقت لگے گا لیکن بین الاقوامی فورمز پر شہباز شریف کے لچکدار طرز عمل کو جو پذیرائی مل رہی ہے اس سےان کی اڑان اونچی ہو گئی ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تو آرمی چیف فیلڈ مار شل عاصم منیر سے بہت متاثر دکھائی دیتے ہیں انہوں نےامریکی فوجی جنرلزسے خطاب کے دوران فیلڈمارشل عاصم منیر کی خوب تعریف کی اور دعویٰ کیا کہ ’’ میں نے سات جنگیں ختم کرائیں، کل ایک جنگ کا تصفیہ بھی کیا ہے، ان جنگوں میں پاکستان اور بھارت کی جنگ بڑی تھی جوایٹمی جنگ ہو سکتی تھی، بھارت پاکستان جنگ میں 7 طیارے گرائے گئے، فیلڈ مارشل عاصم منیر کو جنگ روکنے پر شکریہ ادا کرنے کیلئے مدعو کیا گیاتھا،پاکستانی فیلڈ مارشل نے کہا کہ ’’ ٹرمپ نے جنگ رکوا کر لاکھوں جانیں بچائیں، جنگ ہو جاتی تو بہت زیادہ برا ہوتا‘‘۔ فیلڈ مارشل عاصم منیر کا یہ تبصرہ مجھے بہت اچھا لگا، فیلڈ مارشل کی تعریف کومیں نے اپنے لئے اعزاز محسوس کیا، فیلڈ مارشل نے یہ سب ہمارے ساتھ موجود لوگوں سے کہا جن میں 2 جنرلز بھی موجودتھے۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے صدر ٹرمپ کو ’’امن کا علمبردار‘‘ قرار دیتے ہوئے دنیا بھر میں تنازعات کے خاتمےکیلئے ان کی کوششوں کو سراہا ۔ شہبازشریف نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان طویل المدت شراکت داری کا ذکر کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ صدر ٹرمپ کی قیادت میں دونوں ممالک کے باہمی مفاد میں پاک امریکا تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔ وزیراعظم نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 ویں سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ ہماری بہادر مسلح افواج نے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی قیادت میں بے مثال پیشہ ورانہ صلاحیت، بہادری اور دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے ، ایئر چیف مارشل ظہیر بابر سدھو کی قیادت میں ہمارے شاہینوں نے فضائوں میں دشمن کے حملے کو پسپا کرتے ہوئے سات بھارتی طیاروں کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا‘ ہم طاقت میں ہونے کے باوجود جنگ بندی پر آمادہ ہوئے جو صدر ٹرمپ کی جراتمند اور بصیرت افروز قیادت سے ممکن ہوئی‘‘۔ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وزیر اعظم پاکستان اور آرمی چیف کی ملاقات نے امریکی صدر کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے ’’اوول آفس‘‘ میں ہونے والی ملاقات کے بعد کوئی پریس کانفرنس کی گئی اور نہ ہی کوئی اعلامیہ جاری ہوا ۔قابل ذکر بات یہ ہے پاکستان کی طرف آرمی چیف کے سوا کوئی مذاکرات میں شریک نہ تھا جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی معاونت امریکی نائب صدر اور وزیر خارجہ کر رہے تھے لیکن سوا گھنٹے جاری رہنے والی ملاقات کی کچھ باتیں منظر عام پر آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ پاکستان نے دیگر اسلامی ممالک کے ساتھ انکےغزہ کے تنازع کے حل کیلئے 20نکاتی منصوبےکی حمایت کی ہے،اس منصوبے پر شہباز شریف کو پاکستان کے عوام کی تائید حاصل کرنے میں مشکلات پیش آئیں گی کیونکہ پاکستانی عوام کو مسئلہ فلسطین سے جذباتی وابستگی ہے۔ امریکی صدر کے20 نکاتی غزہ منصوبہ کے خلاف احتجاج شروع ہو گیا۔ پاکستان نے امریکہ کو معدنیات کی دریافت میں دلچسپی لینے پر آمادہ کیا ہے سر دست یہ پیشکش ابتدائی نوعیت کی ہے لیکن اگر واقعی امریکی کمپنیاں معدنیات کی دریافت کیلئے پاکستان آئیں تو قوم پرستوں کی جانب سے شدید مخالفت کاسامنا کرنا پڑے گا ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں سیشن میں شہباز شریف کی سب سے زیادہ دیکھی اور سنی جانے والی تقریر بھی ایک ریکارڈ ہے ۔

تازہ ترین