آزاد کشمیر میں احتجاج کی جو لہر اُٹھی تھی ،سیاسی حکمت و تدبر اور فہم و فراست سے وقتی طور پر تو اسے سنبھال لیا گیا ہے مگر یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنجیدگی کا متقاضی ہے۔عوامی ایکشن کمیٹی کے پلیٹ فارم سے مطالبات کی جو فہرست پیش کی گئی ان میں سے چند ایک قابل اعتراض نکات کے علاوہ بیشتر باتیں عوامی فلاح و بہبود کے ایجنڈے سے متعلق تھیں جن سے کسی صورت اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔حکومت کی طرف سے تحریری طور پر یقین دہانی کروائی گئی ہے کہ 15دن میں ہیلتھ کارڈکے نفاذ کیلئے فنڈز جاری کئے جائیں گے۔حکومت پاکستان آزاد کشمیر میں سستی بجلی کی بلا تعطل فراہمی کیلئے 10ارب روپے فراہم کرئیگی ۔اسکے علاوہ ہر ضلع میں ایم آر آئی اورسی ٹی اسکین مشینیں حکومت پاکستان کی طرف سے مرحلہ وار دی جائیں گی۔میر پور میں بین الاقوامی سطح کا ایئر پورٹ بنایا جائے گا۔گلپور اور رحمان(کوٹلی)میں پل بنائے جائیں گے۔ایڈوانس ٹیکس میں کمی کی جائیگی۔مہاجرین کی نشستیں تب تک معطل رہیں گی جب تک خصوصی قانونی کمیٹی کی رائے سامنے نہیں آجاتی۔حکومت نے سیاسی مصلحت کے پیش نظرنہایت فراخدلی سے کام لیتے ہوئے جموں کشمیر عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے 38نکات پر مشتمل چارٹر آف ڈیمانڈ کے علاوہ بھی کئی شرائط تسلیم کرلی ہیں۔
لوگوں کو مفت علاج اور تعلیم کی سہولت میسر ہو،ضروریات زندگی دستیاب ہوں ،بجلی اور آٹا سستا ملے ،آمد و رفت کیلئے پختہ سڑکیں اور پل تعمیر کئے جائیں مگر یہ سب کچھ فراہم کرنےکیلئے وسائل کہاں سے آئیں گے؟صوبہ پنجاب جو سب سے زیادہ خوشحال اور ترقی یافتہ ہے جہاں بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے کی شرح سب سے زیادہ ہے ،جہاں سب سے زیادہ ٹیکس دیا جاتا ہے وہاں بجلی اتنی مہنگی ہے کہ فریج اور استری استعمال کرتے ہوئے خوف آتاہے ،سرکاری اسپتالوں میں عام افراد کا کوئی پرسان حال نہیں ۔آٹے پر سبسڈی دینا تو درکنار سستی روٹی اسکیم کو جاری رکھنا محال ہوگیا مگر آزاد کشمیر جہاں 310ارب روپے کے بجٹ میں سے انکم ٹیکس کی مد میں 67ارب روپے کا ہدف رکھا گیاہے ،وہاں بجلی اتنی سستی ہے کہ لوگ جانوروں کیلئے بھی پانی الیکٹرک راڈ کے ذریعے گرم کرتے ہیں ۔اس ضمن میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ چونکہ بجلی آزادکشمیر سے پیدا ہوتی ہے اس لئے وہاں کے لوگوں کو سستی دی جائے اور ساتھ خالص منافع میں حصہ بھی دیا جائے۔ویسے تو بجلی کے ان منصوبوں کی تکمیل کیلئے پاکستان بھر کے عوام نے پیٹ پر پتھر باندھے اور برسہا برس تک بجلی کے بلوں میں نیلم جہلم سرچارج کی ادائیگی کی جاتی رہی لیکن بالفرض محال یہ استدلال درست تسلیم کربھی لیا جائے تو پنجاب میں اُگائی جانے والی گندم کا آٹا آزاد کشمیر میں ارزاں نرخوں پر کیوں دستیاب ہو؟اگر ریاست ٹیکس دینے والے شہریوںکو تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہے تو پھر ٹیکس نہ دینے والوں کو آسائشیں کیسے دی جاسکتی ہیں؟ہر علاقے کے لوگ چاہتے ہیںکہ انکے گاؤں کی سڑکیں پختہ ہوں،مراکز صحت میں طبی مشینری اور عملہ دستیاب ہو،مہنگائی اور بے روزگاری سے نجات ملے لیکن مساوات اور برابری کے اصول کے تحت ان مطالبات پر سب کا یکساں حق ہے کسی ایک علاقے کو جزیرے کی مانند جنت کا ٹکڑا کیسے بنایا جاسکتا ہے؟
ان عوامی نوعیت کے مطالبات کے علاوہ یہ نعرہ بھی لگایا گیا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی تاب نہ لاتے ہوئے جن کشمیریوں نے ہجرت کی اور پاکستان کے مختلف علاقوں میں جابسے ،ان کی نشستیں ختم کی جائیں۔اگر یہ لوگ مہاجر اور کشمیری نہیں رہے تو پھر بیرون ملک آباد ہونیوالے کشمیریوں کے بارے میں کیا کہیں گے؟اگرپاکستان سے باہر جاکر بسنے والے کشمیریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے تو پھر پاکستان کے ہی مختلف شہروں میں آباد کشمیریوں کو نمائندگی سے کیسے محروم کیا جاسکتا ہے؟طرفہ تماشا تو دیکھئے کہ ایک طرف بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی بات کی جاتی ہے اور دوسری طرف پاکستان کے ہی مختلف شہروں میںآباد کشمیریوں کو حق نمائندگی سے محروم کیا جارہا ہے۔
آپ خیبر سے کراچی تک کہیں چلے جائیں ،یہاں تک کہ شورش زدہ بلوچستان میں بھی اجنبیت کا تاثر نہیں ملتا۔کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ آپ پاکستان سے آئے ہیں ۔یہ استفسار کیا جاتا ہے کہ آپ کا تعلق کس صوبے ،ضلع اور شہر سے ہے مگر کوہالہ پُل کے اس پار پہلا سوال ہی یہی کیا جاتا ہے کہ آپ پاکستان سے آئے ہیںگویا آپ اپنی سرزمین پر نہیں بلکہ سرحد عبور کرکے ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہورہے ہیں۔کشمیر کی جدوجہد آزادی کیلئے پنجاب کی ماؤں نے نجانے کتنے بیٹے قربان کردیئے۔جذبہ جہاد کا یہ عالم تھا کہ میں جب چوتھی جماعت کا طالب علم تھا تو ایک دن گھر میں کسی کو کچھ بتائے بغیر نکل پڑا کہ جاکر کافروں سے لڑوں گا اور اپنے کشمیری بہن بھائیوں کو بھارتی فوج کے مظالم سے نجات دلاؤں گا۔مگر جب یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ کشمیر وطن عزیز پاکستان کا حصہ نہیں تو دل بہت دُکھتا ہے ۔کشمیریوں کو پاکستانی شہریوں سے بھی زیادہ حقوق حاصل ہیں،وہ اسلام آباد میں سب سے بڑا شاپنگ مال بنا سکتے ہیں ،مگر کسی پاکستانی شہری کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ آزاد کشمیر میں ایک مرلہ زمین بھی خرید سکے۔پاکستان کی بری فوج میں آبادی کے تناسب سے کشمیریوں کا حصہ بہت زیادہ ہے ،میں اعلیٰ عہدوں پر متمکن کشمیری فوجی افسروں کے نام لکھنا شروع کروں تو آپ حیران رہ جائیں گے اور اس پر قطعاً کوئی شکایت نہیں لیکن ان سب عنایات و نوازشات کے باوجود محرومیوں کا بیانیہ کیوں بنایا جاتا ہے؟ میری دانست میں تو اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ جس طرح بھارت نے 5اگست 2019ء کوآرٹیکل 370کے تحت مقبوضہ جموں کشمیر کی جداگانہ اور خودمختار حیثیت ختم کردی تھی ،اسی طرح آزاد کشمیر کو بھی پاکستان میں ضم کردیا جائے تاکہ وہاں کے باسیوں کے وہی حقوق و فرائض ہوں جو دیگر پاکستانی شہریوں کو حاصل ہیں۔یوں مہاجروں کی نشستوں والا معاملہ بھی ختم ہوجائے گا اور کسی کو یہ شکایت بھی نہیں ہوگی کہ برابری کی سطح پر سہولیات نہیں دی جارہیں۔