• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

توقع کے عین مطابق دو اتحادی جماعتوں میں سیز فائر کا پیغام دونوں فریقوں کو موصول ہو گیا ہے۔ مستقبل کی وزارتِ عظمیٰ کے دو متوقع اور متحارب امیدواروں مریم نواز اور بلاول بھٹو کے درمیان کشمکش اور کشیدگی کا حد سے بڑھنا مقتدرہ اور موجودہ سیٹ اپ کے مفاد میں نہیں ہے پہلے سے ہی یہ اندازہ تھا کہ لڑائی بڑھی تو مقتدرہ مداخلت کر کے اسے روک دے گی اور تحریک انصاف کی جھوٹی امیدوں کے پھول بن کھلے ہی مرجھا جائیں گے۔ وزیرداخلہ اور صدر کی ملاقات کے بعد تاریں کھڑک گئیں اورآئندہ ایک دو روز میں مکمل جنگ بندی ہو جائے گی تو فرینڈلی فائر کی بجائے تحریک انصاف کے دشمن ٹھکانوں پر پھر سے حملے شروع ہو جائیں گے۔

نونی اور پپلیےنظریاتی حریف رہے ہیں اور اب بھی ہیں مگر مجبوریوں اور مصلحتوں نے انہیں مخلوط طرز حکومت کی طرف دھکیلا ہوا ہے زرداری صاحب تو شاید اگلے انتخابات کے بعد کوئی حکومتی عہدہ نہ لیں مگر ان کی خواہش ہے کہ بلاول بھٹو کو اگلا وزیراعظم بنانے کی راہ ہموار ہو جائے۔ بلاول من موجی اور من مرضی کے نوجوان ہیں، مرضی کی سوچ اور اپنی راہ پر چلتے ہیں مقتدرہ سے اختلاف ہو یا اتحادیوں سے، زرداری ان کی مصالحت کرواتے رہتے ہیں مگر کئی بار ان کا بس نہیں چلتا تووہ اپنے اکلوتے بیٹے اور جانشین کی ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف نواز شریف کے مریم نواز شریف کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کے عمل کے سیاسی اثرات سامنے آنا شروع گئے ہیں۔ شروع میں وزیراعلیٰ مریم کے انداز اور اختیار میںتحکم کئی حلقوں کوپسند نہ آیا وہ بیوروکریٹس کی میٹنگ ہو یا پارلیمانی محفل اس میں اپنی خودمختاری اور آزادی کا اظہار کرتی تھیں اور اب بھی کرتی ہیں۔ والد نواز شریف کی طرح سرِ محفل کسی ناقدانہ مشورے کووہ سخت ناپسند کرتی ہیں البتہ محفل سے الگ مخلصانہ مشورے کو وہ غور سے سنتی بھی ہیں اور مان بھی لیتی ہیں۔

مریم اور بلاول دونوں کو باقی نوجوان سیاستدانوں پر ایک برتری حاصل ہے اوروہ یہ کہ سیاست میں داخل ہوتے ہی اپنی وراثت کی وجہ سے انہیں کرشماتی حیثیت مل گئی بلاول اور مریم شروع میں اسی وجہ سےچمکے ،یہ دونوں جہاں بھی جاتے ہیں ان کے سیاسی پس منظر کی وجہ سے لوگ کھنچے چلے آتے ہیں، کرشماتی حیثیت ہونا کوئی ذاتی کمال نہیں ہوتا اس کی وجہ ماضی ہوتا ہے لیکن اصل امتحان کرشماتی شخصیت سے اپنے آپ کوعملی اوردِلوں میں اتر جانے والی شخصیت بنانا ہوتا ہے بھٹو اور عمران کرشماتی تو شروع سے تھے مگر انہوں نے اپنے بیانیے سے اور لوگوں کے دل میں اتر جانے کی خوبی کی وجہ سے اکثریت کو تسخیر کر لیا، بینظیر بھٹو کرشماتی شخصیت کے طور پر سیاست میں آئیں، مگر قید و بند کے سخت امتحانوں سے گزر کروہ کندں ہوئیں ان کے دل میں غریبوں اور بے کسوں کیلئے جینوئن محبت تھی وہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے پسینےمیں شرابور خواتین کو گلے لگاتی تھیں، وہ گلی کوچوں میں کھیلنے والے ننگے پیروں والے، ناک بہتے بچوں کے پاس رک کر اظہار محبت کرنے کو پسند کیا کرتی تھیں۔ ذوالفقار علی بھٹو جلسوں میں اپنے ورکروں کے نام لیکر ثابت کیا کرتے تھے کہ وہ اپنے عوام سے کس قدر محبت کرتے ہیں کئی جلسوں میں وہ فرطِ جوش میں مائیک گراتے اور کبھی اپنے کپڑے یا کوئی نشانی غریبوں کی طرف پھینک کر اپنے جیالوں کو خوش کر دیتے۔ کھلے بازوئوں والے عوامی سوٹ کا رواج انہوں نے شروع کیا، عوامی زبان اور سیاسی طعن و تشنیع سے وہ اپنے مجمع کے جذبات کو عروج تک پہنچا دیتے تھے۔ عمران خان سے سو اختلافات کے باوجود یہ ماننا پڑے گا کہ وہ بیانیہ بنانے اور اسے پھیلانے میں سب سے بازی لے گئے انہیں ان کی وجاہت اور کرکٹ نے کرشمہ تو دیا تھا لیکن فنِ تقریر انہوں سیاست میں آکر سیکھا اور پھر اس کے ذریعے چھا گئے عمران کا کرشمہ انہیں شروع کے الیکشن نہ جتا سکے مگر ان کا بیانیہ عوام میں گھر کر گیا اور اسی نے انہیں مقبولیت دلائی۔

بلاول بین الاقوامی ویژن سے بہتر طور پر مزین ہیں بے نظیر بھٹو کے زیر سایہ تربیت پانے کی وجہ سے وہ نظریاتی ایشوز پر بڑی واضح دسترس رکھتے ہیں، اپنے نانا اور اپنی والدہ کے وارث کی حیثیت سے یقیناً ان میں غریبوں اور عوام سے محبت کوٹ کوٹ بھری ہوگی مگر وہ بھٹو اور بے نظیر کی طرح عوام میں گھلتے ملتے نہیں ،بھٹو کی طرح جپھیاں نہیں ڈالتے،وہ پسینے میںڈوبے مزدوروں کے ساتھ محفل نہیں جماتے۔ بے نظیر بھٹو کے بعد پیپلز پارٹی پنجاب میں کوئی بھی بیانیہ بنانے سے قاصر ہے اور جب تک پنجاب میں پیپلز پارٹی 25سے زائد نشستیں نہیں لیتی اس وقت تک بلاول بھٹو کا وزیراعظم بننا ممکن نہیں۔

سب کو علم ہے کہ مقتدرہ موجودہ سیٹ اپ کو چلانا چاہتی ہے اور اس بارے میں کھلےعام عندیہ بھی دیا جاتا ہے۔ بلاول بھٹو اور مریم نواز کے درمیان مقابلے میں فی الحال مریم نواز مقتدرہ کی زیادہ پسندیدہ لگ رہی ہیں ایک بات تو سب پر واضح ہے کہ اصل مقابلہ پنجاب میں ہے سیاست میں عمران کے ساتھ اصلی جوڑ پنجاب میں ہی پڑنا ہے اور اگر مریم پنجاب میں ڈیلیور کر جاتی ہیں تو تبھی ن اور مقتدرہ انتخابات کی طرف جاسکیں گے۔ مریم نواز کرشماتی تو شروع سے تھیں مگر شریف خاندان کا ایک دائمی مسئلہ ان کے ساتھ بھی تھا،دونوں بڑے شریف فنِ تقریر سے لوگوں کے دل میں نہیں اترے اپنے کام کی وجہ سے سیاست میں کامیاب ہوئے۔ مریم نواز فن تقریر میں اپنے خاندان میں سے سب سے بہتر ہو چکی ہیں۔ ستھرا پنجاب کی تقریب میں جس طرح عملہ صفائی کے ساتھ انہوں نے اظہار یکجہتی کیا ان کی یہ تقریر اس عملہ صفائی اور ہر سننے والے کے دل میں اتر گئی ہوگی۔انہوں نے خود کو خاکروبوںکی ساتھی اور ہمدرد بن کر ان کے دل کی تار ہلا دی ہو گی۔ مریم نواز نے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد100 سے زائد نئے پروجیکٹ شروع کئے ہیں مگر ان میں سے اکثرصرف فائلوں اور تقریروں میں دلکش تھی ان کا زمینی اثر ابھی تک کم ہی نظر آیا ہے مگر ستھرا پنجاب وہ پہلا پروگرام ہے جس سے پورے خطے کی تاریخ میں پہلی بارحکومت دیہات تک پہنچی ہے،دیہات میں پہلے حکومتی علامت نمبردار پٹواری اور تھانیدار تھے جو جبر اور لوٹ مار کے نشان تھے حکومتی اور ریاست کی سروسز پہلی بار خاکروب کی شکل میں دیہات تک پہنچی ہیں، خاکروب خدمت اور عجز کی علامت ہے اور یوں ریاست اور حکومت رعب اور جبر کی بجائے خدمت سے پہچانی جائے گی اس منصوبے کے مثبت اثرات لازمی طور پر دیہات میں تبدیلی لائیں گے۔

توقع تو یہی ہے کہ سیز فائر کے بعد معاملہ تھم جائے گا مگربلاول اور مریم میں مقابلہ جاری ہے اور جاری رہے گا ، اصل میں یہ لڑائی وقت سے بہت پہلے شروع ہوگئی۔ الیکشن قریب آنے پر اگر یہ لڑائی ہوتی تو سمجھ آتی، فی الحال یہ ناقابل فہم تھی۔ اس لڑائی سے مریم کوسیاسی فائدہ ملا ہے ان کا پنجابی بیانیہ گو صوبائی تفریق کا باعث بنے گا لیکن کوئی سیاسی بیانیہ نہ ہونے سے یہ بیانیہ بہتر ہے۔ صرف کارکردگی سے سیاست میں نہیں جیتا جا سکتا ،بلکہ بیانیہ اور کارکردگی دونوں دیرپا کامیابی کی ضمانت بنتے ہیں۔

تازہ ترین