دیار غیر میں رہتے ربع صدی ہوچلی لیکن دل ہے کہ پاکستان سے باہر نکلتا ہی نہیں۔ دل کے کسی نہاںخانے میں پاکستان اسطرح بس گیا ہے کہ غیر محسوس انداز میں دل و دماغ اسکی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ خلوت ہو یا جلوت، کسی نہ کسی طرح توجہ کا مرکز میرا پاکستان بن ہی جاتا ہے۔ بچے ٹیلی ویژن پر اپنی پسند کے تفریحی پروگرام دیکھنے میں مصروف ہوتے ہیں تو اچانک یہ خبطی بوڑھا انہیں دو منٹ کیلئے پاکستانی نیوز چینل لگانے کا کہتا ہے اور یوں پورے گھر کا ہنستا بستا ماحول کسی سوگوار مجلس میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ کیا کروں میری پہلی محبت، میرا پاکستان مجھے کسی نہ کسی بہانے سے اپنی طرف متوجہ کئے رکھتا ہے اور اپنی یاد سے غافل نہیں ہونے دیتا۔ کسی مشاق معشوقہ کی طرح اس کے پاس بھی اپنی یادیں میرے دل میں تازہ رکھنے کے ہزار بہانے ہیں۔ کبھی کسی سیاسی مہم جوئی کا بہانہ تو کبھی دہشت گردی کی واردات، کبھی سیلاب جیسی آفت تو کبھی ہمسایہ ملک کی مسلط کردہ جنگ، کبھی فوجی انقلاب تو کبھی مذہبی جماعتوں کی امید افزا تحریک نظام مصطفی، کبھی کسی منچلے کا اولمپک گولڈ میڈل جیت لینا تو کبھی کرکٹ کے نشیب و فراز۔ یہ سب وطن عزیز کی طرف سے میری روح کیلئے خوشگوار گدگداہٹیں بن کر مجھے متحرک رکھتی ہیں اور دل سے پاکستانیت کا رابطہ ٹوٹنے نہیں دیتیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ ہمسایہ ملک کی کرکٹ ٹیم کے کپتان نے میچ جیت کر فرمایا کہ وہ اس جیت کو اپنے ملک کی مسلح افواج کے نام کرتے ہیں۔ اس کا یہ بیان پڑھ کر شاید لوگوں کو دکھ ہوا ہو لیکن مجھے خوشی ہوئی کہ یہ ہندوستانی فوج کی ماضی قریب میں ہوئی جنگ میں شکست کا برملا اظہار تھا کہ جو جنگ ہماری فوج ہار گئی، ہم نے کرکٹ کا میچ جیت کر اس ہار کا بدلہ لے لیا۔پاک فوج کی دھاک کس طرح سے دشمن کے دل پر بیٹھ گئی کہ اب کھیل کے میدان میں بھی وہ پاک فوج کی کاری ضرب کو نہیں بھولتا۔دل اس بیان کی باز گشت سے عرصہ تک مسحور رہا اور سوچنے لگا کہ پاک فوج پر بھی اللہ تعالیٰ کی کیا خاص رحمت ہے کہ نا امید یوں میں سے بھی امید کا سامان پیدا کردیا۔ وہ قوم جو مایوسی کا شکار تھی، اس جنگ کے بعد یکسر ایک نئی قوم بن کر عالمی سیاست کے افق پر نمودار ہورہی ہے۔ اقوم عالم ہمیں اپنے دفاع کیلئے اپنا قابل اعتماد حلیف بنارہی ہیں تو کہیں عالمی تنازعات کو حل کرنےکیلئے ہمیں بطور ثالث مانا جارہا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم اور سپہ سالار اعظم کی عالمی سطح ہر پذیرائی ہورہی ہے۔ مذکورہ بالا تمام نوید ہائے مسرت کے ساتھ ایک خدشہ ہے جو دل کو بے چین رکھتا ہے کہ جس دشمن سے ہم بر سر پیکار ہیں وہ بہت ہی چالاک اور مکار ہے۔ ۱۹۶۵ کی جنگ کے بعد بھی ہم فتح کے نشے میں غافل ہو گئے اور دشمن نے صرف پانچ سال کے عرصے میں ہمیں دولخت کردیا۔ فتح کا بھی ایک نشہ ہوتا ہے جو افراد اور اقوام کے ہوش و حواس کو معطل کرکے انہیں معروضی حالات اور زمینی حقائق سے بے خبر کر دیتا ہے اور دشمن اس حالت مدہوشی کا فائدہ اٹھا کر ضرب کاری لگا سکتا ہے۔ مجھے یقین کامل ہے کہ وطن عزیز کی سیاسی و عسکری قیادت کو ان تاریخی حقائق کا ادراک ہے اور وہ اس مکار دشمن کو پلٹ کر وار کرنے کا موقع نہیں دیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ جس فوج کی کمان دشمن پر حملہ بھی اپنے نبی اکرم کی سیرت اور سنت کی روشنی میں کرتی ہے اسے رسول اکرم کا یہ فرمان بھی ضرور یاد ہوگا کہ’’مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ وہ اللّٰہ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ فوج کی قیادت ایک ایسے مرد مجاہد کے ہاتھ میں ہے جسکا دل قرآن کے نور سے منور ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ وطن عزیز کا حامی و ناصر ہو۔پاکستان پائندہ باد، پاک فوج زندہ باد