سیاست اور معاشرت، وفا اور بے وفائی، اسکا اور میرا، محبت اور بے اعتنائی یہ سب ازل سے جاری ہے اور یوں ہی جاری رہیگا۔ اچھے دنوں کی بات ہے خوش گپیاں ہورہی تھیں گورنر سلمان تاثیر خوش مزاج اور گپ شپ کے شوقین تھے گو مذہب کے بارے میں حساسیت سے قطعی لاعلم تھے اور سمجھانے کے باوجود سنی ان سنی کر دیتے تھے مگر رومانس، سیاست اور بزنس کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کے ماہر تھے، کہا کرتے تھے کہ میں بزنس سے پیسے کماتا ہوں اور سیاست پر خرچ کرتا ہوں بزنس میرا شوق نہیں، میرا شوق سیاست ہے میں اپنے پسندیدہ مشغلے پر پیسہ خرچ کرکے خوش ہوتا ہوں۔ ایک روز محفل گرم تھی بات سیاست سے ہوتی ہوئی رومانس اور اسکینڈل تک پہنچ گئی پاکستان کی ایک خوبصورت پارلیمنٹیرین کی ایک بزنس مین سے بے وفائی کا ذکر چھڑ گیا۔ سلمان تاثیر، شاعر محمد دین تاثیر کے بیٹے تھے، حس لطیف سے مزین تھے۔ انہوں نے اپنے بزنس مین دوست کی دولت اجڑنے اور ان کی محبوبہ کی بے اعتنائیوں، اپنے رقیبوں سے آشنائیوں کا ایسا دردناک نقشہ کھینچا کہ حاضرین محفل ٹرانس میں آکر محبوبہ کی بے وفائیوں پر درد بھرے تبصرے کر رہے تھے کہ میں نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں عرض کیا۔ وفادار محبوبہ سے عشق کا مزا ہی کیا ہے اصل مزا تو بے وفا محبوبہ سے عشق لڑانے کا ہے، اسی لئے تو شاعر بے وفا محبوبہ پر صدیوں سے مضمون باندھتے آئےہیں، اسی لئے تو میر تقی میرؔ جسکے سبب بیمار ہوئے اسی عطار کے لڑکے سے بار بار دوا لیتے ہیں۔ خیر میری اس انوکھی اور دنیا کی رِیت روایت سے ہٹی بات پر رومان پرور سلمان تاثیر پھڑک اٹھے، میں نے مزہ لیتے ہوئے کہا، شاعر کو بے وفا زیادہ اچھے لگتے ہیں کہ انہیں بار بار لبھانا پڑتا ہے، بار بار کوشش کرنی پڑتی ہے، رقیبوں سے لڑائی لڑنی پڑتی ہے اور محبوبہ کو اپنی طرف متوجہ کرنا پڑتا ہے، یہی تو عشق بازی ہے وگرنہ باوفا محبوبہ ہو تو انجام شادی ہے پھر کہاں کا عشق اور کہاں کی بے وفائی یا کہاں کی وفاداری۔ بے وفا سے عشق ایک چیلنج، ایک ایڈونچر، ایک جنگ ہے جسکے مزے میرؔ ،غالبؔ اور رومانوی شاعر لیتے ہیں۔ سلمان تاثیر تادم آخر ’’بے وفا سے عشق‘‘ کے فلسفے کا مزہ لیتے رہے اور ہر بے تکلف دوست کو ہنس ہنس کر یہ قصّہ سنایا کرتے تھے۔
سیاست اور رومانس میں بے وفاؤں کو رد کرنے اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کو بہتر فیصلہ سمجھا جاتا ہے گنڈاپور ہوں یا پرویز خٹک، انصافی بے وفاؤں کی چھٹی پر خوش ہوتے ہیں مگر کیا غالبؔ اور میرؔ بھی بے وفا کو اتنا ہی برا سمجھتے ہونگے۔ میرا خیال ہے کہ انہیں بے وفا بھی اچھے لگتے تھے، گنڈا پور نے جس طرح عمران خان کے کہنے کے بعد جھٹ سے استعفیٰ دیا ہے اس سے انکے بارے میں غلط فہمیاں دور ہونگی یا نہیں یہ فیصلہ تو مستقبل کا مورخ کرے گا جب گنڈا پور کے بعد خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کا مستقبل طے ہوگا۔
یہ دنیا فاتحوں، بہادروں، طاقتوروں اور دولتمندوں کی ہے مگر کیا ہارنے والوں، بزدلوں، کمزوروں اور غریبوں کیلئے کوئی جگہ نہیں؟ خدا نے تو یہ دنیا سب کیلئے بنا رکھی ہے مگر اصلاً طاقتوروں نے کمزوروں کی دنیا تنگ کر رکھی ہے۔ اگر کوئی بے وفا فاتحوں، طاقتوروں اور دولتمندوں کا ساتھ دے تو اس میں برا منانے کی کیا بات ہے۔ بے وفا محبوب نے بھی وہی کیا جو دنیا کی رِیت ہے مگر خدا نے کمزوروں اور ہارنے والوں کیلئے بھی دنیا میں بھرپور گنجائش چھوڑی ہے ،بے وفاؤں نے بھی اسی دنیا میں رہنا ہے انہیں بھی شاعروں کی طرح دل میں جگہ دینی چاہئے۔ سچے بادشاہ دوسرے بادشاہوں اور سچے گرو دوسرے گروؤں کیساتھ بادشاہوں جیسا سلوک کرتے ہیں،جیتنے والے، ہارنے والوں سے سکندر اور پورس جیسا تعلق کیوں نہیں بناتے، ہیرکی سیدے کھیڑےسے شادی کے باوجود رانجھا اپنا عشق ختم نہیں کرتا بلکہ اور بڑھا دیتا ہے ،بے وفا سے عشق کوئی مجنوں کے جنون سے پوچھے، بے وفا کی اہمیت کوئی مصطفیٰ زیدی سے پوچھے جو شہناز گل کیلئے دنیا ہی چھوڑ گئے۔ محبوب وفا کریگا یا بے وفائی، سوہنی جب کچے گھڑے پر چناب کی طوفانی لہروں میں ڈوب رہی تھی تو کیا اس نے وفا اور بے وفائی کا سوچا ہوگا؟ نہیں۔
تاریخ کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے وفا اور بے وفائی کے معانی اور مطالب بھی مختلف النوع ہوتے ہیں بعض اوقات آپ کے باوفا دوست اپنے خلوص کے باوجود آپ کو اندھے کنویں میں پھینک رہے ہوتے ہیں اور کئی دفعہ بے وفا آپ کو جو راستہ دکھا رہے ہوتے ہیں وہ کامیابی اور سلامتی کا ہوتا ہے۔ گنڈا پور کی اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کی سوچ کچھ کیلئے خان سے بے وفائی پر مبنی تھی جبکہ شاید کچھ کیلئے اسکی یہ بے وفائی دانائی پر مبنی ہو اور بحران سے نکلنے کا ممکنہ حل ہو۔ کچھ کیلئے سہیل آفریدی کی وفاداری اسے وزیراعلیٰ بنانے کا انعام ہو مگر دوسروں کیلئے یہی وفاداری طاقتوروں سے بے وفائی، غداری اور شرپسندی ہوگی۔
شہزادہ خسرو مغل اعظم اکبر بادشاہ کا پسندیدہ پوتا تھا وہ جہانگیر کا بڑا بیٹا تھا۔ شہزادہ خسرو کے وفاداروں نے اسے اپنے باپ جہانگیر کے خلاف آمادہ پیکار کیا۔ خسرو کو اکبر اپنے بیٹے سلیم عرف شیخو یا جہانگیر کی نسبت زیادہ عقل مند گردانتا تھا مگر جہانگیر نے مغل دربار کے اکثریتی کمانڈروں کو یعنی کہ اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ ملایا، جہانگیر ایرانی، افغانی اور تورانی درباریوں کازیادہ پسندیدہ تھا حالانکہ اکبر کے نورتن، ابوالفضل وغیرہ جہانگیر کیخلاف تھے، اکبر بادشاہ کے وفادار اسے کہتے تھے کہ سلیم کو جانشین مت بناؤ مگر کاتب تقدیر نے کچھ اور لکھا تھا خسرو کو دادا اکبر کی حمایت حاصل تھی ماں مان بائی عرف شاہ بیگم تھی مگر مغل اسٹیبلشمنٹ ہمنوا نہ بن سکی جہانگیر کے زمانے میں ہی بادشاہ خرم شاہجہاں نے اپنےبھائی خسرو کو پہلے اندھا کروایا اور پھر مروا ڈالا۔ شاہجہاں کے تخت پر بیٹھنے سے پہلے لاہور میں موجود تمام مقابل شہزادوں کو بھی تہ تیغ کر دیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ خسرو کے وفادار مستقبل نہ پڑھ سکے اور اپنے ہی بہترین امیدوار کو پہلے نابینی اور پھر قتل تک پہنچا دیا ،تاریخ نے خسرو کے بے وفائوں کو درست ثابت کیا۔ اہل وفا جوش اور جنون میں وفاداری دکھا کر اپنا دل جلا کر ہتھیلی پر رکھ رہے ہوتے ہیں جبکہ اہل جفا یا بے وفا بعض اوقات ہوش اور عقل سے مشورے دے کر آپ کو ناپسندیدہ راستہ دکھا رہے ہوتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ شیکسپیئر نے بروٹس کو بے وفا قرار دیا اور جولیس سیزر کو جمہوریہ کو بادشاہی بنانے کا خواب دیکھنے کے باوجود ہیرو قرار دیا۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا وفا اور بے وفائی کے جذبے کو عقل اور نتائج سےماپنا ہے یا جذبات اور جوش کے جذبے سے۔ ایک ہی واقعے کو دو طرح دیکھنے اورجائزہ لینے سے نتائج قطعی مختلف آتے ہیں۔ آج کی پاکستانی سیاست میں عمران خان کے یوٹیوبر اُن کے پُرخلوص اور سچے ساتھی شمارہوتے ہیں، گنڈاپور یا عمران خان کی سوچ سے اختلاف کرنے والے بے وفا، پارٹی لیڈر کے غدار ہیں۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ کیا آج نظر آنے والی وفا داری کل عمران کو سیاسی فائدہ دے سکے گی یا عمران سے بظاہر بے وفائی کرنیوالے تاریخ میں درست ثابت ہونگے۔ وقت ہی سب سے بڑا امتحان ہے۔ گنڈاپور کی سیاست ختم ہو گئی یا آج سے شروع ہوگی اس کیلئے اگلے وقت کا انتظار کرنا ہوگا .....!