قطر پر اسرائیل کے حالیہ حملے نے مشرقِ وسطیٰ کے افق پر ایک نئی بے چینی کو جنم دیا ہے۔ دوحہ کے نواح میں کیے گئے اس حملے نے نہ صرف عرب دنیا کو چونکا دیا بلکہ اسے یہ احساس بھی دلایا کہ عالمی طاقتوں سے ملنے والی سلامتی کی ضمانتیں دراصل کاغذی وعدوں سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب خطرہ حقیقی صورت اختیار کر لیتا ہے تو دنیا کی بڑی طاقتیں اپنی ترجیحات بدل لیتی ہیں۔ یہی وہ پس منظر ہے جس میں پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا نیا دفاعی معاہدہ سامنے آیا۔ یہ معاہدہ بظاہر عسکری نوعیت کا ہے مگر درحقیقت مسلم دنیا کے سیاسی اور تزویراتی منظرنامے میں ایک نئی تشکیل کا اعلان بھی ہے۔
یہ معاہدہ صرف ہتھیاروں، تربیت یا فوجی مشقوں تک محدود نہیں بلکہ یہ باہمی اعتماد، سلامتی اور مشترکہ دفاع کا نیا بیانیہ پیش کرتا ہے۔ پاکستان اور سعودی عرب، دونوں اسلامی دنیا کے دو مضبوط اور اثر ورسوخ رکھنے والے ممالک ہیں، اور انکے درمیان یہ شراکت صرف دو ملکوں کی نہیں بلکہ پورے خطے کی سمت طے کرے گی۔
دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعاون کی تاریخ پرانی ہے۔ سعودی عرب کی فضائیہ اور فوجی تربیت میں پاکستانی افسران برسوں سے کلیدی کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ 1980ء کی دہائی میں پاکستان نے سعودی عرب کے دفاع کیلئے محدود فوجی دستے بھی تعینات کیے تھے۔ تاہم، اس حالیہ معاہدے کی نوعیت اس سے کہیں زیادہ گہری اور وسیع ہے۔ معاہدے کی وہ شق جس میں کہا گیا ہے کہ اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوا تو اسے دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا، دراصل یہCollective Defence کے اصول کی بازگشت ہے۔ یہ تصور نیٹو جیسے فوجی اتحاد میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے، اور اس کی شمولیت سے یہ معاہدہ روایتی دوستی سے نکل کر ایک مشترکہ سلامتی کے عہد میں بدل گیا ہے۔
پاکستانی وزارتِ خارجہ نے وضاحت کی ہے کہ یہ معاہدہ کسی تیسرے ملک کے خلاف نہیں بلکہ دفاعی نوعیت کا ہے، مگر بین الاقوامی مبصرین اسے مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے توازن کی ایک بڑی تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔ مغربی تجزیہ کاروں نے اسے غیر رسمی طور پرPakistan’s Nuclear Umbrellaکہا ہے، یعنی سعودی عرب کو اب پاکستان کی دفاعی صلاحیت کے سائے میں ایک خاموش ایٹمی تحفظ حاصل ہوگا۔ اسلام آباد نے اگرچہ اس کی تردید کی ہے، مگر عالمی سیاست میں اکثر Ambiguityخود ایک پیغام ہوتی ہے۔ اس خاموش مفہوم یا ابہام نے سعودی عرب کے حریفوں، خصوصاً ایران اور اسرائیل، دونوں کو متوجہ کیا ہے۔سعودی عرب کیلئے یہ معاہدہ ایک نیا موڑ ہے۔ گزشتہ ایک دہائی میں ریاض نے دیکھا کہ امریکہ سمیت مغربی طاقتیں مشرقِ وسطیٰ میں اپنی عسکری موجودگی محدود کر رہی ہیں۔ یمن کی جنگ، ایران کے ساتھ تنازع اور خطے میں بڑھتے ہوئے خطرات نے سعودی قیادت کو یہ احساس دلایا کہ اب اپنی سلامتی کیلئےایک قابلِ اعتماد مسلم پارٹنر کی ضرورت ہے، اور پاکستان سے زیادہ فطری انتخاب کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔
پاکستان کیلئےبھی یہ معاہدہ غیر معمولی سفارتی اہمیت رکھتا ہے۔ اس کے ذریعے اسلام آباد نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ محض جنوبی ایشیا کی سیاست کا حصہ نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی سلامتی میں بھی ایک فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس معاہدے سے پاکستان کے دفاعی اور صنعتی شعبوں کے ساتھ ساتھ معیشت میں بھی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ سعودی سرمایہ کاری، توانائی کے معاہدےاور مشترکہ دفاعی ٹیکنالوجی کی ترقی یہ سب اس شراکت کو ایک وسیع تر معاشی و تزویراتی فریم ورک میں بدل سکتے ہیں۔چین اور ترکی جیسے ممالک کیلئےبھی یہ پیش رفت دلچسپی کا باعث ہے۔ چین’’بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو‘‘کے تحت مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مفادات کو محفوظ بنانا چاہتا ہے، اور پاکستان و سعودی عرب کا دفاعی اتحاد اس کیلئے سی پیک سے خلیج تک ایک محفوظ خطہ فراہم کر سکتا ہے۔ ترکی پہلے ہی قطر اور آذربائیجان کے ساتھ اپنے فوجی تعلقات کو وسعت دے چکا ہے، اور اب اگر وہ اس نئے اتحاد کے قریب آتا ہے تو ایک نیا مسلم اسٹرٹیجک محور تشکیل پا سکتا ہے جسکے تین بڑے ستون ہونگے: پاکستان، سعودی عرب، اور ترکی۔خطے کے دیگر ممالک نے اس معاہدے پر محتاط ردِعمل دیا ہے۔ بھارت نے سرکاری طور پر تشویش ظاہر کی ہے، جبکہ ایران نے کہا ہے کہ اگر سعودی عرب کسی ایٹمی سائے میں آتا ہے تو یہ خطے کے توازن کیلئےخطرناک ہوگا۔ امریکہ نے بظاہر مثبت ردِعمل دیا ہے مگر واشنگٹن کے پالیسی حلقوں میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ کہیں یہ معاہدہ خطے میں امریکی اثرورسوخ کو کم تو نہیں کر دے گا۔پاکستان میں عوامی سطح پر یہ معاہدہ اعتماد اور فخر کا باعث بنا ہے۔ سوشل میڈیا پر اسے مسلم یکجہتی کی ایک نئی مثال قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے معاہدے کے فوراً بعد مثبت رجحان دکھایا، جبکہ دفاعی صنعت اور سرمایہ کار حلقوں میں بھی نئی امیدیں جاگ اٹھیں۔
تاہم، یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں۔ پاکستان کے محدود مالی وسائل، بیرونی دباؤ، اور سفارتی توازن برقرار رکھنے کی ضرورت، یہ سب عوامل آئندہ مہینوں میں ایک امتحان بن سکتے ہیں۔ اگر مستقبل میں کسی موقع پر معاہدے پر عمل درآمد کی نوبت آتی ہے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ مشترکہ دفاع کا عملی مفہوم کیا ہوگا۔ کیا پاکستان سعودی دفاع کیلئے براہِ راست فوجی مداخلت کرے گا یا صرف تکنیکی، انٹیلی جنس اور تربیتی تعاون تک محدود رہے گا؟قطر پر اسرائیلی حملہ اس حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ عالمی سیاست میں کمزور اقوام کیلئےکوئی محفوظ پناہ گاہ نہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کا یہ دفاعی معاہدہ اسی عدم تحفظ کا جواب ہے۔ یہ ایک عہد ہے کہ اگر دنیا انصاف نہیں دے سکتی تو مسلمان اپنی سلامتی کا بندوبست خود کر سکتے ہیں۔ یہ معاہدہ صرف دفاع کا نہیں بلکہ اعتماد، خود انحصاری اور مستقبل کی نئی سمتوں کا اعلان ہے۔ اگر اسے سنجیدگی، بصیرت اور استقلال کے ساتھ آگے بڑھایا گیا تو یہ پوری مسلم دنیا کیلئےایک نئے دور کی بنیاد بن سکتا ہے، ایک ایسا دور جس میں اتحاد کمزوروں کا نہیں بلکہ خودمختاروں کا نشان بنے گا۔