وطنی سیاسی انجینئرز نے جب بھی کسی نئے پروجیکٹ پر ہاتھ ڈالا، طریقہ کار ’’ریورس انجینئرنگ‘‘ ہی رہا۔ ہدف کا تعین پہلے کیا امابعد کھیل کی منصوبہ بندی ہوئی۔ عملی جامہ پہنانے میں متغیرات (Variables ) کا ردوبدل یعنی کہ پرانے کردار منہا اور نئے کردار شامل کرنا، معمول ہے ۔
علی امین گنڈا پور کے استعفیٰ کا معاملہ بھونچال بن کر آیا۔ رول ختم شد کہ کھیل میں اب نئے کردار شامل ہونے کو ہیں ۔ تبدیلی کے فضائل یا نقصان پر بحث اہم نہیں ، تبدیلی کے پس منظر کو جاننا اور سمجھنا اہم ہے۔ دورائے نہیں کہ جب عمران خان نے علی امین کو وزیراعلیٰ KP بنایا تو پیشِ نظر مقصد اسٹیبلشمنٹ سے معاملہ فہمی اور مفاہمت کو بڑھانا تھا۔ ماننے میں عار نہیں کہ مقتدرہ ’’عمران خان بحران‘‘ سے نبردآزما ہونے میں یکسر ناکام رہی ، وجوہات راکٹ سائنس نہیں۔ بقول دو جرنیلوں (پریس کانفرنس 27 اکتوبر 2022 ) عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کا فیصلہ مارچ 2021ء میں ہو چکا تھا۔ غیرمبہم الفاظ میں بتایا کہ اگلے 18سال نافذ رہنا ہے۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض جوڑی نے عمران خان ہٹاؤ پروجیکٹ کیساتھ مفاداتی ایجنڈا نتھی رکھا ۔ جنرل باجوہ بنفس نفیس یااپنے من پسند کو آرمی چیف دیکھنا چاہتے تھے ۔ شہباز شریف جب وزیراعظم بنے تو اتحادی حکومت کا ایک ماہ کے اندر بستر لپیٹنا ساتھ درج تھا۔ بذریعہ نگران حکومت باجوہ پلان آگے بڑھنا تھا ۔ عمران خان کو شہباز حکومت کیخلاف مہم چلانے کی کھلی چھٹی دی گئی۔ جلسے، ریلیوں کی اجازت اور بذریعہ جنرل فیض حمید سہولت کاری جاری رکھنے کا فیصلہ ہوا، ڈر اتنا کہ اتحادی حکومت وعدہ خلافی کرے گی ۔ عمران خان نے موقع غنیمت جانا جنرل باجوہ اور اسکی ٹیم کیخلاف تند و تیز تقاریر ، TV انٹرویوز نے اسکی کمزور سیاست میں جان ڈال دی۔ نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ مخاصمت بیانیہ عمران خان کو منتقل اور عمران خان کا مہرہ ہونا نواز شریف کو منتقل ہوا تو مقبولیت اور غیرمقبولیت کا ادلہ بدلہ بھی آناً فاناً ہو گیا ۔ بعد ازاںپنجاب میں پرویز الٰہی سے لیکر MPAs کی 20نشستوں پر ضمنی انتخابات میں جیت ہو یا جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی جوڑی کا عمران خان کو شہ دیکر لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر کی ممکنہ چیف تعیناتی رُکوانے کیلئے GHQ پر چڑھائی کا منصوبہ، ارشد شریف کا قتل یا عمران خان پر قاتلانہ حملہ تاکہ ممکنہ خانہ جنگی اور نتیجتاً مارشل لا لگانا تھا ۔ باجوہ کا ایجنڈا اپنی طاقت کو دوام دینا تھا، عمران خان سیاست کو توانا اور ناقابل تسخیر بنا ڈالا۔
وطنی سیاست میں مقبولیت کا واحد رہنما اصول، اسٹیبلشمنٹ کیخلاف مخاصمتی بیانیہ اپنائیں ۔ چنانچہ جب تک جنرل باجوہ اور جنرل فیض رخصت ہوئے تب تک عمران خان ایک لاینحل بحران بن چکا تھا۔ کمانڈ میں تبدیلی پر (دسمبر 2022ء) جب ریٹائرڈ جنرل فیض حمید کیخلاف کارروائی نہ ہوئی تو میرا واہمہ کہ جنرل فیض کوعمران پروجیکٹ UNDO کرنے کا موقع دیا گیا ہے ۔ چنانچہ جنرل فیض کی میڈیا، عدلیہ سیاسی ٹیم بھی تسلسل کیساتھ عمران خان کیساتھ جڑی رہی۔ 12اگست 2024 ء کو جنرل فیض جب پکڑے گئے تو یقین کامل تھا کہ انکا کام ختم ہو چکا۔ اب اگر عمران خان کا جب کبھی مکو ٹھپنا ہوا تو مفید نسخہ دستیاب رہنا ہے۔ اگرچہ عمران خان نے PTI قیادت اور اہم حکومتی عہدے ایسے لوگوں کو دیئے جنہوں نے مفاہمتی پالیسی کو آگے بڑھانا تھا ۔ 8فروری کے انتخابات نے عمران خان سیاست کو کئی گنا مضبوط بنا ڈالا تو عمران خان نے گیم پلان تبدیل کر دیا۔ مقتدرہ سے پوزیشن آف اسٹرنتھ سے بات آگے بڑھانے کی ٹھانی۔ نئی نویلی حوصلہ افزائی مع سوشل میڈیا کا مفاداتی ایجنڈا دباؤ، باوجودیکہ تحریک انصاف ذمہ داران مقتدرہ کیساتھ مفاہمتی رابطہ میں، عمران خان کا مفاہمتی اندازِ فکر بدل گیا ۔ بذریعہ دباؤ ، مفاہمتی عمل بڑھانے کو ترجیح بنایا۔
نتیجتاً اب دونوں فریقین آخری ’’معرکہ حق و باطل‘‘ کی ٹھان چکے ہیں۔ عمران خان نے گرم اور سرد، ہر دو انداز اپنائے، جہاں ایک طرف مفاہمتی مذاکرات جاری تو ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ مخالف سخت بیانیہ بھی عام کیا۔ سوشل میڈیا کی مہربانی کہ عمران خان کے سخت بیانیہ کو بڑھا چڑھا کر اپنا ’’ڈالر اُلو‘‘سیدھا کرتے رہے اور ساتھ ہی ماننے چاہنے والوں کو سخت بیانیہ کا اسیر بھی بنا ڈالا ۔ 14 ماہ سے فیض حمید کیس کی کوئی پیشرفت سامنے نہ آئی باوجودیکہ کورٹ مارشل مقدمہ بجلی کی کوند ماند چلتا ہے۔ تو میرا گمان یہی کہ مقتدرہ مفاہمتی عمل کو چلانا چاہتی ہے۔ اب جبکہ مفاہمتی مذاکرات ختم شد تو جنرل فیض کارڈ حرکت میں آچکا ہے۔ مقتدرہ کے حوصلےکی داد ، سخت دشمنی کے باوجود پونے دو سال مذاکرات کی رسی کو ڈھیلا چھوڑے رکھا ، مفاہمتی عمل کو موقع دیا۔ عمران خان نے جب شد ومد کیساتھ مزاحمتی بیانیہ اپنایا تو مجھے یقین ہو گیا کہ اب علی امین گنڈاپور قصہ پارینہ بننے کو ہیں ۔ عمران خان کسی لڑنے مرنے والے کو وزیراعلیٰ بنائیں گے ۔
سہیل آفریدی نوجوان ہونے کے ناطے پُرجوش، غصے، جذبے اور وفاداری جیسے تمام لوازمات سے مالامال ، ’اگر ‘ وزیراعلیٰ بن گیا اور ’اگر ‘اسٹیبلشمنٹ کے اثر و رسوخ سے باہر رہنے کی تمنا بھی رکھی تو پھر چند ماہ بعد انکا خاتمہ بالخیر دیوار پر کندہ ہے۔ بالفرض محال، سہیل آفریدی پر اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نہ ہوا ، تو پھر اوّل تو وہ وزیراعلیٰ بن ہی نہیں پائیں گے اور اگر بنے بھی تو شاید چند ماہ بھی عہدہ برقرار نہ رکھ سکیں ۔ 24اکتوبر 2024ء کو بشری بی بی رہا ہوئیں تو مقتدرہ کے ذہن میں بشری بی بی ہی بطور ممکنہ جانشین تھیں ۔ یادش بخیر ، رہائی کے چند دنوں بعد KP شفٹ ہوئیں اور عملاً پارٹی قیادت اور KP حکومت سنبھال لی۔
24نومبر لانگ مارچ کی قیادت اسی ضمن میں تھی ۔ معلوم نہیں، مقتدرہ مایوس کیوں ہوگئی اور انکو دوبارہ حوالہ زنداں کیوں کیا؟ البتہ تب سے علیمہ خان کیلئے پارٹی میں عمل دخل کا نہ صرف راستہ کھل گیا۔ ایک ماہ پہلے اسی پیرائے میں ’’جانشین عمران خان ‘‘اور ’’وزیراعظم علیمہ خان‘‘ کالم لکھے اور یہی ثابت کیا کہ مقتدرہ جانے یا انجانے علیمہ خان کو بطور جانشین پروموٹ کر رہی ہے ۔ پچھلے چند ماہ سے PTI سوشل میڈیا اور عمران خان کے چاہنے ماننے والوں کی علیمہ خان بارے وارفتگی اور یکسوئی ، ہرگز اچنبھے کی بات نہیں ۔اب جبکہ خبریں عام کہ فیض حمید کا ٹرائل آخری مراحل میں اور عمران خان بطور گواہ طلب ، دال میں بہت کچھ کالا دِکھتا ہے۔
عمران خان کی کسی نامعلوم مقام منتقلی کی خبر اور ایسے موقع پر وزارتِ اعلیٰ میں تبدیلی ، ماننے میں قباحت نہیں !کہ عمران خان کو جنرل فیض کیس سے نتھی رکھنا طے ہو چکا ہے ۔ شاید جلد یا بدیر فوجی تحویل میں بھی دیدیا جائیگا ۔ کئی کالموں میں اشارۃًکنایتاً نشاندہی کی ، اب واضح اور حتمی کہ عمران خان بارے ’’ہونی یا انہونی ‘‘اب جلد ہونے کو ہے۔ باقی ’’آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں ‘‘البتہ ملک اس بار متحمل نہیں ہو پائے گا۔