1965 ءمیںاردن میں فلسطینی پناہ گزین والدین کے ہاں پیدا ہونیوالے عمر موانس یاگی نے زندگی کی تنگیوںمیںپرورش پائی۔ان کا خاندان ایک چھوٹے سے کمرے میں رہتا تھا، جہاں وہ مویشی بھی ساتھ رکھتے تھے۔ پانی قیمتی شے تھی، تعلیم ایک عیش، اور صحرائی افق انکے بچپن کا منظر نامہ۔ پندرہ برس کی عمر میں، عمر یاگی امریکہ چلے گئے انگریزی کم، لیکن تجسس بے پناہ۔انہوں نے 1985 میں SUNY Albany سے گریجویشن مکمل کی، اور 1990 میں یونیورسٹی آف الینوائے سے والٹر کلیمپریر کی نگرانی میں پی ایچ ڈی حاصل کی۔
ایک چرواہے کا بیٹا غربت سے امکانات کی دنیا میں داخل ہو چکا تھا۔عمر یاگی نے کبھی یہ ارادہ نہیں کیا تھا کہ وہ دنیا کے بڑے مسائل حل کریگا۔وہ صرف خوبصورت چیزیں بنانا چاہتا تھا مادّے کی پوشیدہ جیومیٹری کو سمجھنا چاہتا تھا۔اسی تجسس سے ایک نیا علمی باب جنم لیتا ہے۔ریٹیکیولر کیمسٹری (Reticular Chemistry) ایٹموں کو جال کی مانند بُننے کا فن۔اپنے انقلابی کام کے ذریعے یاگی نے میٹل-آرگینک فریم ورکس (MOFs) ایجاد کیے ۔ایسے کرسٹل نما، سوراخ دار ڈھانچے جو دھاتوں اور نامیاتی اجزاء کو جوڑتے ہیں۔ان فریم ورکس کی اندرونی سطح اتنی وسیع ہے کہ ایک گرام مادّہ فٹبال کے میدان جتنا رقبہ رکھتا ہے۔یہ ڈھانچے گیس جذب کر سکتے ہیں، پانی صاف کر سکتے ہیں، کیمیکلز الگ کر سکتے ہیں، اور ہوا سے پانی حاصل کر سکتے ہیں چاہے صحرا جتنا خشک ماحول ہی کیوں نہ ہو۔ڈیَتھ ویلی میں کیے گئے تجربے میں، یاگی کے ایجاد کردہ ایک آلے نے محض ایک دن میں فی کلوگرام MOF سے 285گرام پانی حاصل کیا، وہ بھی 20نمی میں۔ ہوا سے پانی ،سائنس نے بقا کی آخری سرحد عبور کر لی تھی۔
اس کارنامے کی بدولت، عمر یاگی کو ریٹیکیولر کیمسٹری کا بانی کہا جاتا ہے۔انہوں نے انسانیت کے فطرت سے تعلق کا نیا باب کھولا۔وہ اسے ’ایئر اکانومی‘کہتے ہیں جہاں پانی، کاربن ڈائی آکسائیڈ، اور ہائیڈروجن جیسے وسائل ہوا سے ہی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔2020ءمیں، انہوں نے Atoco نامی کمپنی کی بنیاد رکھی، جو ان MOFs کو پانی اور کاربن کے حصول کے تجارتی نظاموں میں بدل رہی ہے۔اور اکتوبر 2025ءمیں، عمر یاگی کو سسومو کیتاگاوا اور رچرڈ روبسن کیساتھ مل کر نوبیل انعام برائے کیمسٹری سے نوازا گیا ۔ ان کی ایجاد کردہ MOFs کے لیے، جو سائنسی اصطلاح میں کہلاتے ہیں:’کیمسٹری کے لیے نئے کمروں کی تعمیر‘۔تجسس، سرمایہ، اور تہذیب عمر یاگی کی زندگی میںایک آفاقی حقیقت کا مظہر ہیں۔ تجسس ہی تہذیب بناتا ہے۔بچپن میں مالیکیولز کی تصویریں بنانے سے لے کر ایسی ساختیں تخلیق کرنے تک جو زندگی کے لیے وسائل فراہم کرتی ہیں۔ان کا طریقہ ہمیشہ ایک سا رہا،پوشیدہ ڈھانچہ دیکھو۔ اس کا ڈھانچہ بناؤ۔ اور حقیقت میں آزماؤ۔انہوں نے بے شمار ناکامیاں دیکھیں۔ تجربے ناکام ہوئے، فنڈنگ رکی۔لیکن ان کا وژن قائم رہا، کیونکہ ان کے نظریات منطقی اور مضبوط ساخت پر مبنی تھے۔
ہر کامیابی ایک نئی صنعت، ایک نیا آلہ، ایک نئی امید کا آغاز بن گئی۔ان کی کہانی یہ یاد دلاتی ہے کہ سائنس تنہائی میں پیدا نہیں ہوتی۔یہ وہاں پروان چڑھتی ہے جہاں جامعات، تجربہ گاہیں، اور آزاد ذہن اکٹھے ہوتے ہیں۔یاگی کے کام نے مٹیریلز سائنس، کرسٹلوگرافی، انجینئرنگ، اور ماحولیاتی سائنس کو ایک سوچ میں جوڑ دیا۔ایک ذہن میں بجتا ہوا علم کا آرکسٹرا۔ایک دنیا جو رفتار اور تماشے کی دیوانی ہے۔اس میں عمر یاگی کا ورثہ ایک خاموش انقلاب ہے۔یہ ہمیں بتاتا ہے کہ دوراندیش سائنس سست، غیر مرئی، اور مستقل ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک دن سب کچھ بدل دیتی ہے۔ وہ چرواہے کا بیٹا جو کبھی بادلوں کو بارش کیلئے دیکھتا تھا،آج دنیا کو سکھا چکا ہے کہ آسمان سے پانی کیسے حاصل کیا جاتا ہے۔