پاک افغان تعلقات آج جس قدر کشیدہ ہیں اور بھارت افغان روابط میں جیسی گرمجوشی نظر آرہی ہے، کچھ مدت پہلے تک کسی کیلئے بھی اس کا تصور ممکن نہیں تھا۔ یہ صورت حال اس حقیقت کے باوجود ہے کہ پاکستان نے پچھلی چار دہائیوں میں افغانستان پر دو عالمی طاقتوں کی فوج کشی کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والے چالیس لاکھ افغان مہاجرین کو نہ صرف پناہ دی بلکہ مکمل بھائی چارے کا ماحول فراہم کیا ، رہائش اور کاروبار کی تمام ممکنہ سہولتیں مہیا کیں اور کسی اجنبیت کا ذرّہ برابر بھی احساس نہیں ہونے دیا جبکہ دوسری طرف بھارت نے افغانستان پر حملہ آور ہونے والی طاقتوں کی بھرپور حمایت کی اور ان کے خلاف مزاحمت کرنے والے طالبان کو دہشت گرد قرار دیا۔
ان واقعاتی حقائق کے باوجود تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں پر ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب دونوں ملکوں کی مسلح افواج میں خوں ریز تصادم کی اطلاعات ہیں اور دوسری طرف بھارت اور افغانستان کے وزیر خارجہ کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے مشترکہ اعلامیے میں جموں اور کشمیر کو بھارت کا حصہ اور پاکستان میں بھارت کی حمایت یافتہ اور افغانستان میں محفوظ ٹھکانے رکھنے والی دہشت گرد تنظیموں کی کارروائیوں کو پاکستان کا داخلی معاملہ قرار دیا گیا ہے۔
پاکستانی دفترخارجہ نے ہفتے کے روز افغانستان کے سفیر کو طلب کر کے اس مشترکہ اعلامیے کے حقائق کے منافی نکات پر پاکستان کے شدید تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے بجا طور پر کہا ہے کہ جموں و کشمیر کوبھارت کا حصہ قرار دینا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور جموں و کشمیر کی قانونی حیثیت کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یہ مؤقف نہ صرف خطے کے عوام کے احساسات کی توہین ہے بلکہ بھارتی غیر قانونی قبضے کے تحت جموں و کشمیر کے عوام کی حقِ خودارادیت کی منصفانہ جدوجہد کے خلاف بھی ایک اشتعال انگیز اقدام ہے۔
دہشت گردی کو پاکستان کا اندرونی مسئلہ قرار دیے جانےپردفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے بارہا ٹھوس شواہد کیساتھ یہ بات اجاگر کی ہے کہ فتنہ الخوارج اور فتنہ ہند سے وابستہ دہشت گرد عناصر افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کر رہے ہیں جنہیں افغانستان کے اندر موجود بعض عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے۔
پاکستان کا یہ دعویٰ یقیناً ٹھوس شواہد کا حامل ہے ۔ افغانستان سے دہشت گردوں کی آئے دن پاکستان آمد اور دہشت گردی کی کارروائیاں پوری دنیا کے سامنے ہیں جن میں یہ دہشت گرد بھی اکثر بڑی تعداد میں مارے جاتے ہیں اور پاک فوج کے افسر اور جوان بھی دفاع وطن کی جدوجہد میں جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ اس لیے یہ دعویٰ کہ دہشت گردی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، حقائق سے صریحاً متصادم ہے۔ پاکستان اپنے مؤقف کے حق میں اگرچہ عالمی اداروں کو ٹھوس شواہد فراہم کرتا رہا ہے لیکن افغانستان سے آنے والے جو دہشت گرد پاک فوج کے ہاتھوں مارے جاتے، زخمی ہوتے اور گرفتار کیے جاتے ہیں، ان کی تفصیلات بھی جس حد تک ممکن ہو اگر سامنے لائی جاتی رہیں اورگرفتار ہونے والے دہشت گردوں کے انٹرویو ذرائع ابلاغ کو جاری کیے جائیںتو دنیا بھر میں عوامی سطح پر پاکستان کے مؤقف کی صداقت اور افغانستان اور بھارت کے دعووں کا بے بنیاد ہونا پوری طرح عیاں ہوجائے گا اور کسی کیلئے اسے جھٹلانا ممکن نہیں رہے گا۔ امید ہے کہ متعلقہ حلقے اس تجویز پر غور کریں گے اور اسے روبہ عمل لانا کسی وجہ سے مناسب نہیں تو اس کی وضاحت کی جائے گی۔
افغان وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کے ساتھ ہی کابل پر پاکستان کے فضائی حملوں اور ان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ نور ولی محسود کے مارے جانے کی خبریں بھی گرم ہوئیں۔ سوشل میڈیا پراس کی خاصی تفصیلات بھی دیکھی گئیں مگرپاکستان کے سرکاری ذرائع اور پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے اس بارے میں کوئی تفصیلات تادم تحریر جاری نہیں کی ہیں۔
تاہم اگر یہ سچ ہے تو اس سے افغان حکومت کے ان دعووں کی مکمل تردید ہوجاتی ہے کہ اس نے پاکستان میں دہشت گردی کے ذمے دار عناصر کو افغانستان میں محفوظ ٹھکانے فراہم نہیں کررکھے ہیں۔لہٰذا نور ولی محسود اگر واقعی کابل میں مارا گیا ہے تو اس بارے میں حقائق کا سامنے آنا یقیناً پاکستان کے حق میں بہت مفید ہوگا۔افغان وزارت دفاع کے مطابق افغان سرزمین پر پاکستان کے فضائی حملوں کے جواب میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ڈیورنڈ لائن پر پاکستان کی متعدد چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا گیا اور اہداف حاصل ہونے کے بعدکارروائی روک دی گئی جبکہ پاکستان کے سیکورٹی ذرائع کے مطابق افغانستان کی اشتعال انگیزی کا بھرپور جواب دیا گیا جس میں اطلاعات کے مطابق ٹینک توپیں اور ڈرون بھی استعمال ہوئے اور اس کے نتیجے میں حملہ آور بھاری نقصان اٹھانے کے بعد پسپائی پر مجبور ہوگئے۔
پاک افغان تعلقات میں کشیدگی کا اس حد تک پہنچ جانا یقیناً بہت تشویشناک ہے جس کا اظہار مشترکہ دوست بھی کررہے ہیں۔ سعودی عرب اور قطر نے فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے اس سلسلے کی بلاتاخیر روک تھام پر زور دیا ہے۔بلاشبہ فوجی تصادم کا جاری رہنا دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان خلیج کو ناقابل عبور بناسکتا ہے لہٰذا دوستوں کے تعاون سے معاملات بہتر بنانے کی دونوں جانب سے بلاتاخیر کوشش ضروری ہے۔
افغانستان کو بھی سوچنا چاہیے کہ طالبان حکمرانوں کو اب تک دہشت گرد قرار دینے والی مودی حکومت کی اپنے ملک میں کھلی مسلم دشمن پالیسیوں، کشمیر میں جاری اس کی مسلم کشی ، صہیونی اسرائیلی حکمرانوں سے اس کے گہرے تزویراتی تعلقات، فلسطینی مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم میں ہتھیاروں کی فراہمی کے ذریعے سے اس کا عملی تعاون ، گزشتہ مئی میں پاکستان کے خلاف اس کی جارحیت جس میں اسرائیل کے سوا دنیا کے کسی ملک نے اس کی حمایت نہیں کی اور جس میں پاکستان کے ہاتھوں بدترین شکست کھاکر وہ دنیا بھر میں رسوا ہوئی- اِس مودی حکومت سے پاکستان کے خلاف گٹھ جوڑ کرنا جسے پوری مسلم دنیا آج اپنی سلامتی کا محافظ تصور کرتی ہے، اس کیلئے نفع کا سودا ہوگایا سراسر گھاٹے کا؟