• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محبّت محض انسانوں ہی سے نہیں، خالقِ کائنات کی تخلیق کردہ ہر جان دار شئے سے کی جاسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے اپنے ماضی اور اس سے منسلک ہر شئے سے بے حد محبّت ہے۔ میری یادوں کے نہاں خانوں میں ماڑی انڈس کا برطانوی دَور کا تعمیر شدہ بڑا کشادہ گھر اور اس کے صحن میں لگا پیپل کا گھنا درخت آج تک تازہ ہے۔ صحن کے وسط میں، بہت پُروقار انداز میں اِستادہ اُس موٹے تنے کے درخت کی شاخیں بھی انتہائی مضبوط تھیں۔ 

درخت کے اِردگرد گولائی میں تین سے چار فٹ مٹّی اور اینٹوں کا چبوترا تھا۔ ہم اس چبوترے کے اوپر سے درخت پر چڑھ کر ایک شاخ سے دوسری شاخ پر چھلانگیں لگاتے اور خوب موج مستی کرتے۔ پیپل کے اس درخت پر لگنے والا پھل، جسے پپیال کہتے تھے، پکنے کے بعد خشک ہوکر خوش ذائقہ، مزے دار اور میٹھا ہوجاتا تھا، جسے ہم زمین سے اُٹھا اُٹھا کر شوق سے بِنا سوچے سمجھے کھاتے تھے۔ اُس وقت ذہن کسی بھی طرح کے جراثیم کے تصوّر سے بھی مبّرا تھا۔

جب تیز ہوا چلتی، تو گھنے درخت کے پتّوں کی مخصوص سرسراہٹ کانوں کو بہت بھلی محسوس ہوتی۔ درخت کے پرانے پتّے تو بوسیدہ ہوجاتے، مگر نئی کونپلیں، نیے پتّے جینے کی اُمید دلاتے۔ میرے والد صاحب جس محکمے میں ملازم تھے، وہاں سے اُن کی ملازمت ختم ہوئی، تو ہم نے وہ علاقہ چھوڑ دیا۔ اللہ نے والد صاحب کے لیے کہیں اور روزگار لکھ دیا تھا۔ 

سال دو سال بعد اُس طرف جانا ہوا، تو دل میں ترنگ تھی کہ اپنے بچپن کے دوست کو ہَرا بَھرا دیکھ کر ایک طراوت کا احساس ہوگا، مگر صد افسوس کہ اُس جگہ سے اس تناور اور ہَرے بَھرے درخت کا نام و نشان تک مٹ چکا تھا۔ یہ دیکھ کر بڑی مایوسی ہوئی، لیکن… اے میرے پیارے پیپل کے درخت! تم اِس جہاں سے تو مٹ چُکے ہو، مگر جب تک مَیں زندہ ہوں، تم میری یادوں کی البم میں ہمیشہ سرسبز و شاداب اور توانا ہی رہوگے۔ مَیں آج بھی اپنی یادوں کی البم میں خود کو اپنی ہم جولیوں کے ساتھ اپنے گھر کے کشادہ صحن میں لگے اس درخت سے گِرے پھل اُٹھاتے اور کھاتے دیکھ رہی ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ یادیں کبھی نہیں مرتیں، ماضی کبھی فنا نہیں ہوتا۔ (مصباح طیّب، سرگودھا)

سنڈے میگزین سے مزید