مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
(محمد عباس)
بادام، پستے کی کبھی مجھے کمی نہ ہونے دی۔ نتیجتاً تیرہ سال کی عُمر میں، مَیں اچھا خاصا پہلوان بن گیا۔ اِس ساری خاطرداری کا مقصد یہی تھا کہ مَیں بڑا ہو کر آسانی سے زمین دارہ کرسکوں۔ وہ کہا کرتی۔ ’’پُتر! زمین دارہ اتنا سوکھلا نہیں۔ بندے میں بیل جیسی طاقت ہونی چاہیے۔
اب جتنی خوراک کھائو گے، آ گے ساری زندگی کام آئےگی۔ کبھی تھکو گے نہیں، تمہارا ہاتھ کبھی اپنی کمر پر نہیں جائے گا۔ تمہارا بابا اللہ جنت نصیب کرے، پائو پائو مکھن گُڑ کی طرح کھا جاتا تھا۔ اِسی لیے تو وہ ہل واہی میں اتنی جان مارنے کے باوجود گاؤں کا نامی پہلوان تھا۔ دیکھنا! تم بھی کیسے اپنے بابے کے نام کی لاج رکھتے ہو۔ اُس نے سوا تین مَن مگدر اُٹھایا تھا، تم چار مَن اُٹھائو گے۔‘‘
میرے آٹھویں تک آتے آتے بےبے ذہنی طور پر تیار ہو چُکی تھی۔ اُس کے دل میں بیٹھی تھی کہ اب سانا جلد ہی اپنے بابے کا کام سنبھال لے گا۔ اُن دِنوں وہ اپنے جٹ رشتے داروں سے بیل خریدنے کے متعلق صلاح مشورے بھی لینے لگی۔ اُس کا چہرہ لسّی سے دھوئی چاٹی کی طرح چمکتا تھا۔ ایک دن اپنے بھائی سے کہہ رہی تھی۔
’’تم دیکھ لینا۔ جب سانا بیل جُگڑا کرے گا، تو لوگ خانو کو یاد کیا کریں گے۔ یہ اُس سے بھی آگے نکلے گا۔ اِس کا جُثہ نہیں دیکھتے! رب نے بنایا ہی ہل واہی کے لیے ہے۔ اس کے ہتھ پیروں سے مجھے اِس کا بابا یاد آ جاتا ہے۔ جب وہ ہتھا دبا کے پنجوں پر زور دے کر چلتا تو زمین پرانی ٹاکی کی طرح پھٹتی چلی جاتی تھی۔‘‘
بےبے کے یہ سارے منصوبے اپنی جگہ، لیکن اپنی سادگی کی وجہ سے وہ جان نہ پائی کہ اب وقت کتنا بدل چُکا ہے، اب خان محمّد کا زمانہ نہیں رہا، اب احسان علی کا دَور ہے۔ اب بیل نہیں، ٹریکٹر ہل دھروتے ہیں۔ اُن دِنوں میرا ابا کویت سے آیا ہوا تھا، جب میرا آٹھویں کا رزلٹ آیا۔ شام کو ابّا اور امّاں میری اگلی پڑھائی بارے مشورہ کررہے تھے کہ بےبے بول پڑی۔ ’’اور کتنا پڑھاؤ گے اِسے۔ آٹھ پڑھ لیں، بس اب اسکول چُھڑوا دو اور زمینیں سنبھالنے دو اسے۔
زمین داروں کے پُتّر کا کتابوں سے کیا تعلق… تھوڑا بہت حساب کرنا آ گیا ہے، بہت ہے…‘‘ ’’بےبے جی! آپ چھوڑیں۔ ہم بات کررہے ہیں ناں!‘‘ ’’کیوں، مَیں کیوں چھوڑ دوں؟ تمہارا پُتّر ہے، تو میرا پوترا نہیں؟ تمہیں تو اِس کی خبر بھی نہیں۔ پالا تو اِسےمَیں نے ہے۔ تم سے زیادہ یہ میرا ہے۔ سمجھے۔‘‘ بےبے چڑ گئی۔ ’’بےبے جی! آپ نہیں سمجھتیں ناں۔ آپ کو کیا پتا، پڑھائی کتنی ضروری ہے؟‘‘ ’’نہ مجھےتو کسے چیز کا پتا ہی نہیں ہے۔ تم بڑے کسی لاٹ کی اولاد ہو۔ تمہارے باپ نے کیا پڑھا تھا؟ آخر کتنی شان سے زندگی گزار کے گیا ہے۔
خُود تم کون سا سولہ جماتیں پڑھے ہوئے ہو، تیسری میں نَس گئے تھے۔‘‘ ’’بےبے! میری بات اور تھی۔ مَیں تو تھا ہی نالائق۔ یہ تو بڑا لائق ہے اور اب زمانہ بھی وہ نہیں رہا، جب ہم جیسے اَن پڑھوں کا بھی گزارہ ہو جاتا تھا۔ اب پڑھائی کے بغیر تو بندے کو بندہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔‘‘ ابے کا لہجہ تھوڑا کھردرانے لگا۔ ’’اَن پڑھ کے لیے دنیا میں صرف دھکے اور ٹُھڈے ہی ہیں۔ مجھے دیکھ لو، کسی سے ہیٹا نہ تھا، لیکن اتنی مدت کویت میں رہ کے بھی مزدور کا مزدور ہوں۔
ذرا ذرا سے لڑکے آتے ہیں اور آتے ہی فورمین بن بیٹھتے ہیں، کیا ہے کہ بس بارہ جماتیں پڑھے ہوئے ہیں۔ مَیں نے تو اِسے اتنا پڑھانا ہے کہ گائوں میں کسی نے نہ پڑھا ہو۔‘‘ ’’اِس نے فورمین تھوڑا ہی بننا ہے۔ یہ تو ہل واہی کرے گا۔ زمین سنبھالے گا اپنی۔ اِسے پڑھائی کی کیا لوڑ ہے…‘‘’’بےبے! آج کل زمین دارہ نری بھوک ہے۔ میرا پُتّر تو اس کام کو دیکھے گا بھی نہیں!‘‘ بےبے ٹلّا کھائی گُلی کی طرح اُٹھی۔ ’’شاوا ہےتمہیں، شاوا ہے۔ جٹوں کا پُتّراور زمین دارے کو ہاتھ بھی نہیں لگائے گا؟ اور کیا اِسے لفٹین بنانا ہے؟‘‘ ’’نہ بےبے۔ مَیں تو اِسے ڈاکٹر بناؤں گا۔
اللہ نے اِسے ذہن دیا ہے اور ہمیں پیسے بھی دیے ہیں، ہم اپنی پوری کوشش کریں گے۔ یہ ڈاکٹر بن گیا تو سارے علاقے میں ہمارا نام ہوگا…‘‘ ’’پر مَیں پوچھتی ہوں، ہماری ساری زمین کون سنبھالے گا؟ کیا اس پر کمّی لوگ ہی ہل گھسیٹتے رہیں گے؟‘‘ ’’زمین پہلے بھی تو کتنے عرصے سے اُنہی کے ہاتھ میں ہے، آئندہ بھی وہ کرتے رہیں تو کیا حرج ہے۔ کام چلتا رہے گا۔ صرف زمین داری سے خالی روٹی چلتی ہے، گھر نہیں چلتا۔ ہماری توسولہ بیگھےزمین ہے، ادھرتو مربعوں والے بھی روتے ہیں۔ کوئی نہری علاقہ ہوتا تو پھر بھی گزارہ ہو جاتا۔
یہاں پتھر زمین تو سر پھوڑنے کے کام ہی آ سکتی ہے۔‘‘’’بس چُپ کر۔ تیرا پیو، دادا بھی اِسی زمین پر پلا تھا۔‘‘ ’’وہ زمانہ اور تھا۔ وہ لوگ سارا سال ایک ہی تہمد، کُرتے میں وقت گزارنے والے لوگ تھے۔ اب آدھا گائوں باہر سے پیسے مانجھ رہا ہے۔ آج کوئی بھوکا ننگا رہنے کو تیار نہیں۔ اب تو زندہ رہنے کے لیے ضروری ہوگیا ہے، اچھا کمانا، اچھا کھانا۔ کسی کے پاس پہننے، دکھانے کو نہیں تو برادری میں کمّی بن جائے گا۔
یہاں تو مربعوں کے مالک زمینیں بیچ کر بھاگنے کی فکر میں ہیں، آپ دو چپّے زمین کے آسرے پر اس غریب کو باندھ رہی ہیں؟‘‘ میری امّاں نے وضاحت کی۔ ’’ہاااہا… ٹھیک ہے پُتّر۔ سیانے کہتے ہیں کہ بچّہ اپنے پیٹ کا، سِٹّا اپنے کھیت کا۔ جب میرا اپنے بیٹے پر بس نہیں چلا، تو تمہارے بیٹے پر کیا زور ہے۔ جو مرضی آئے کرو…‘‘ بےبے کا گلا جیسے اندر سے کسی نے پکڑ لیا۔ ’’کیوں بےبے! یہ پُتّر آپ ہی کا ہے۔ ہم تو اِس کے بھلے کے لیے کہہ رہے ہیں۔‘‘ ’’ہاں مَیں تو ویری ہوں ناں اِس کی۔ تمہیں زیادہ عقل ہے۔ جو مرضی کرو، مَیں نہیں بولوں گی۔‘‘ بےبے اُٹھ کر مصلّے کی طرف چلی گئی۔
اُس کےبعد فیصلہ ہوگیا کہ مجھے کس اسکول میں پڑھنا ہے۔ میرا بستہ بھاری سے بھاری ہوتا چلا گیا اورمَیں خانہ شٹاپو کی طرح جماعتیں ٹاپتا رہا۔ امّاں، ابّا خوش تھے اور ہر بار میرے پاس ہونے پرتازہ ہو اُٹھتے تھے۔ وہ خواب بُنتے اور مَیں اُن کی تعبیر تانتا جا رہا تھا۔ اِس دوران بےبے چپیتی سی ہوگئی۔ مصلّے کا دورانیہ بڑھ گیا اور چہرے کی چمک گھٹتی چلی گئی۔ شاید اُس نے صحیح معنوں میں خُود کو بوڑھی مان لیا تھا۔ مجھ پراُس کی توجّہ ویسی ہی تھی، لیکن اب زمین داری کی باتیں بہت کم کرتی تھی۔
اب تو بیٹھی بس جوانی کے وقت کے گیت سناتی رہتی یا میرے بابے کی باتیں کرتی رہتی۔ بابے کا ذکر شاید اُسے جوان کردیتا۔ اِسی لیے بابے کا نام آ جانے پر جوانی کے گیت گانے لگتی۔ چٹا ککڑ بنیرے تے…کاشنی دوپٹے والیے…منڈا صدقے تیرے تے…نی کاشنی دوپٹے والیے۔ ’’بےبے! یہ تو بابا گاتا ہوگا۔ تم کیا گاتی تھی۔‘‘ ’’مجھے تو کوئی سات سو بیس گیت آتے تھے۔ پر تیرے بابے کے سامنے کدی اِک گیت نہیں گایا۔ وہ کہیں دُور ہوتا تو پھر گاتی تھی۔
جیوے میری ڈھول ماہی دیے جانے … خط مَیں پاواں، ماہیا پڑھیا آپ ہووے… میری اے ڈھول… کُنڈا ٹُٹ گیا والی دا… پتلا پتنگ ماہیا کسے قسمت والی دا… میری اے ڈھول…‘‘ لگتا تھا، بابا اب بےبے کو بہت زیادہ تنگ کرتا تھا۔ ہر ہر بات میں کسی نہ کسی طرح بابے کا ذکر نکال لاتی۔ ’’تیرے بابے نے ویاہ والے دن کس طرح کا جوڑا پہنا تھا۔ تیرا بابا جب سُرخ لاچا باندھ کے نکلتا، تو گائوں کی کتنی کنواریاں مجھ سے جل جل اُٹھتیں۔
اس کے منہ پر مونچھ نویکلے زیور کی طرح سجتی تھی، اُس کے قد بُت میں گھوڑے جتنی طاقت دبی تھی، بابے کے ساتھ جوڑ کے ہل کوئی نہیں چلا سکتا تھا، کئی بارمقابلے ہوئے، ہمیشہ تیرا بابا ہی جیتا۔ گھر میں کبھی اونچی آواز نہیں بولتا تھا، پھر بھی پورے گھر پراُس کا رعب ہوتا تھا۔‘‘ وہ گم بیٹھی گھنٹوں سُناتی رہتی، خواہ میرا دھیان ہو یا نہ ہو۔ جانے ایک ہی زندگی اُسے کتنی بار جینے کی خواہش تھی کہ مُڑ مُڑ کر اُسی طرف لوٹ جاتی۔
ابے کی تن خواہ بڑھنے سے گھر کی حالت کافی بہتر ہوگئی تھی۔ مَیں بارہویں جماعت میں تھا، جب ہم نے بھینس بیچ دی۔ بےبے نے خاصا شور مچایا۔ ’’یہ کیا اندھیر کررہے ہو؟ کیا اب ہمارے کِلّے پر ڈڈار بولا کریں گے۔‘‘ لیکن امّاں نے دو ٹوک جواب دیا کہ ’’اب مَیں بھینس نہیں سنبھال سکتی، کوئی اور اِس کا پَٹھا دَتھا کرسکتا ہے، تو شوق سے رکھ لے۔‘‘ بےبے کا بڑھاپا تھک بھی چُکا تھا اور ہار بھی چُکا تھا، بس منہ بسور کے رہ گئی۔ جس دن بھینس گھر سے رخصت ہوئی، بےبے پورا دن منہ لپیٹ کر یوں لیٹی رہی، جیسے بیٹی کو وداع کرنے کے بعد مائیں پڑ رہتی ہیں۔
بھینس کے جانے سے بسار خالی ہوگیا تھا۔ اب بھوسا رکھنے کی تُک ہی نہ تھی۔ پورے بسار میں صرف ایک ہل اور پنجالی ہی رہ گئی تھیں، جو دیوار پر ٹنگی عجیب سی نظر آتیں، جیسے بےواہی زمین میں کیکر پُھوٹے ہوئے ہوں، کوجھے اوربے مصرف۔ گھر خالی خالی اور کشادہ محسوس ہونے لگا تھا۔ دیکھے سے اوپرا اوپرا لگتا۔ ماں کی جان کاموں سے چُھوٹ گئی تھی، سارا دن فارغ بیٹھی رہتی۔ بےبے بہانے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اُس سے لڑا کرتی۔ ’’جوان جہان کُڑی ہے اور ابھی سے تھک کے بیٹھ گئی ہے۔
بس پیسا آگیا ہے ناں، ورنہ مَیں بھی تھی، ہڈیوں کا سُرما بننے تک کمر سیدھی کرنے کا بھی نہیں سوچا تھا۔ اب کوئی پوچھے، سارا دن بیٹھ بیٹھ کے تھکتی نہیں ہو؟ بندہ کام کاج کرتا رہے، تو جان بنی رہتی ہے۔ بیٹھ گیا تو پھر پکّا لیٹ گیا۔ پر کوئی کیسے سمجھائے انہیں۔‘‘ ماں سب جانتی تھی کہ بےبے کو غصّہ کس بات کا ہے، مگر بولتی نہیں تھی، بولتی تو لڑائی بڑھ جاتی۔ مَیں کبھی کبھی بےبے کا دل خوش کرنے کے لیے ہل اُتار لاتا اور ویہڑے میں ہل چلانے کی نقل کیا کرتا۔
بےبے اسی کو دیکھ کر اپنا دل پرچا لیتی تھی۔ گھر میں کسی آئے گئے کو بٹھانے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ ابّا کافی عرصے سے ایک بیٹھک بنانے کا سوچ رہاتھا۔ اب جو اُس نے کچھ پیسے بچت کرلیے تو گھر آ کے بیٹھک کے لیے کام شروع کروا دیا۔ گھر میں کسی نئی تعمیر کے لیے جگہ تھی ہی نہیں، بس ایک ہی طریقہ تھا کہ بسار کو گرا کر اس کی جگہ بیٹھک بنوا لی جائے۔
سو، ایسا ہی کیا گیا۔ بےبے کی آنکھوں کے سامنے بسار کی ساری تعمیر گرا دی گئی۔ پرانی اینٹوں کو کلر ہوجانے کےخدشے سےنئی تعمیر میں استعمال نہیں کیا جانا تھا۔ اینٹیں اور چھت کا پوکھر ایک کمّی کو دے دیا گیا۔ ہل اور پنجالی کو اُٹھا کر چھت پر آسمان کے سائے میں رکھ دیا گیا۔ بےبے نے چیختی آنکھوں سے سب کچھ دیکھا، مگر منہ سے کچھ نہ بولی۔ بیٹھک بنی اور بڑی شان دار بنی، لیکن بےبے بُجھ گئی تھی۔ ابّا تو بیٹھک بننے کے بعد واپس کویت چلا گیا، بےبے واپس نہ آئی۔
ہل اور پنجالی اوپر پڑی رہیں، اب نیچے رکھنے کو جگہ ہی کہاں بچی تھی، بھلا بیٹھک کے اندر یا سامنے رکھ کے ساری شان خراب کرنی تھی۔ دھوپ اور بارش دونوں کی چمک کھا گئیں۔ کچے چھت کی مٹی نے بیری کی مضبوط لکڑی مٹیا دی۔ دھیرے دھیرے وہ خستہ ہوتی رہی۔
مَیں نے ایک دوبار اُسے جھاڑ پھونک کر صاف کیا، بعد میں کبھی ادھر خیال ہی نہ گیا۔ بےبے البتہ جب تک چلتی پِھرتی رہی، اُس پر دھیان دیتی رہی۔ بعد میں وہ بھی جیسے دیمک کا شکار ہوگئی، روز بروز گھسنے لگی۔ ہل کو کون دیکھتا! آخرایک دن ابا کو ایمرجینسی واپس بلانا پڑا، لیکن ابّا کے آتے آتے بےبے نے بھی واپسی کی راہ پکڑلی۔ ابّا نے آ کر مٹی کو مٹی کے حوالے کر دیا۔
بےبے کے مرنے پر بڑی خلقت جمع ہوگئی تھی۔ ابے کی توقع سے بھی زیادہ۔ کھانا کِھلاتے وقت دیگیں کم پڑگئیں۔ نائی کو فوراً ایک دیگ مزید چڑھانے کاحُکم دے دیا گیا۔ نائی نے گوشت منگوا، کاٹ کوٹ کے دیگ چڑھا دی، لیکن ساتھ ہی مطلع کر دیا کہ دیگ کے لیے لکڑی کم پڑ جائے گی، تھوڑی سی لکڑی اور منگوا لی جائے۔ اب فوری طور پر لکڑی کہاں سے منگوائی جاتی۔ ابا گھبرا گیا۔ اب اگر کسی کو آرے پہ بھیجا تو دیر ہوجائے گی، مہمانوں کے سامنے چادر اُتر جائے گی۔
امّاں تک بات پہنچی تو ان کے ذہن نے کام کیا۔ فوراً بولیں۔ ’’اگر تھوڑی سی لکڑی چاہیے تو اوپر چھت پہ جو ہل اور پنجالی پڑی ہیں، اُنہیں چیر لو۔ کون سا اِن کی کوئی ضرورت ہے۔ کیا لازم ہے کہ پڑی پڑی دیمک چاٹ جائے…!‘‘ابے نے جھٹ ایک ماچھی کے ہاتھ ہل، پنجالی نیچے منگوا، مصلی سے لکڑی پھڑوا، نائی تک پہنچا دی۔ بے بے کے مرن پر کھانا بابے کی ہل سے پکایا گیا۔ وہ ٹھیک ہی کہتی تھی۔’’میری اور اس کی قسمت ایک جیسی ہے۔‘‘