تہذیب کی نبض ہمیشہ دریا کے بہاؤ سے جڑی رہی ہے۔ آج یہ بہاؤ الٹ رہا ہےاور زمین خاموشی سے کہہ رہی ہے کہ زمین کا سب سے گہرا راز، سب سے بڑا خزانہ پانی کم ہو رہا ہے۔ یہ صرف پانی کی کمی نہیں یہ وقت کا پلٹ جانا ہے، انسان کے غرور کا نتیجہ اور فطرت سے بغاوت کا عتاب ہے۔دریاؤں کی پسپائی جغرافیائی تبدیلی نہیں لاتی بلکہ تاریخ کی تہیں کھول دیتی ہے۔ مٹّی جب سوکھتی ہے تو وہ اپنی سینکڑوں سال پرانی کہانیاں، دفن شدہ خواب اور عظیم سلطنتوں کے بوسیدہ نشانات بھی لوٹا دیتی ہے۔
موصل کے خشک کناروں پر نمودار ہونے والے قدیم مقبرے ہوں ،چین کے یانگ سی میں چھٹی صدی کے بدھ مجسمے یا اٹلی کے پو دریا سے برآمد ہونے والے جنگی ٹینک یا سندھ کی وادی میں دفن ہڑپہ اور مو ہنجو دڑو کے خاموش کھنڈرات،ہر سوکھتا کنارہ زمین کی ایک فریاد ہے۔ایک سچی گواہی اورا یک انتباہ ہے۔آئیے، سنتے ہیں کہ دریا کنارے کیا صدا آ رہی ہے۔زمین ایک حافظے کی طرح ہے جوکبھی کچھ بھولتی یا فراموش نہیں کرتی ۔جو کچھ بھی اس کے سینے پر گزرتا ہے، وہ اسے اپنے اندر دفن کر لیتی ہے ۔انسان کے شہر، اس کے گناہ، اس کے خواب، حتیٰ کہ اس کی ہڈیاں تک۔جب پانی خشک ہونے لگتا ہے تو زمین اپنی یادیں واپس مانگتی ہے۔
عراق کے موصل ڈیم کے نیچے جب پانی سمٹنے لگا تو دو ہزار تین سو سال پرانے مقبرے نمودار ہوئے۔ماہرین کے مطابق یہ میتانی سلطنت یا آشوری دور کے آثار ہیں۔یہ وہی وادی ہے جہاں کبھی دجلہ و فرات کے کنارےبابل کے مینار اٹھے تھےاور جہاں نینوا میں بادشاہ اشور بنی پال نے دنیا کی پہلی لائبریری بنائی تھی۔اب وہی سرزمین سوکھی مٹی کی صورت میں اپنی تہذیب کے مزار دکھا رہی ہے۔یہ منظر نیا نہیں۔کیونکہ جب دجلہ پیچھے ہٹا تو مٹی کے بت ملے۔جب فرات کم ہوا تو لکھا ہوا ماضی ظاہر ہوا۔۔چین کا یانگ سی دریا، جو قدیم چین کی زراعت اور روحانی زندگی کا مرکز تھا۔جب پچھلے برس سکڑا تو چھٹی صدی کے بدھ مجسمے پانی سے نکل کرایسے مسکرائے جیسے وقت کہہ رہا ہو’’میں ابھی زندہ ہوں، میں اپنی کہانی سناتا ہوں‘‘۔برصغیر کا دریائے سندھ بھی آج وہ نہیں رہا جو موہن جو دڑو اور ہڑپہ کی زندگی تھی۔یہی دریا جب اپنے کناروں سے بہتا تھا، تو اس نے ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا جسے دنیا انڈس ویلی سولائزیشن کہتی ہے۔یہ تہذیب تحریر سے پہلے کا شعور تھی ۔پھر جب دریا نے رخ بدلا، زمین خشک ہوئی تو وہی عظیم شہر مٹی کی تہوں میں دفن ہو گئے۔آج جب سندھ کے کنارے کم ہوتے جا رہے ہیں، تو تاریخ جیسے خود کو دہرا رہی ہے۔ہندوستان کی گنگا، جو کروڑوں دلوں کی روحانی ماں کہلاتی ہے اب آلودگی اور انحطاط کے بوجھ سے کراہ رہی ہے۔یہ دریا کبھی مقدس تھا، آج زہر آلود ہے۔اس کے کنارے جلتے دیے اور بہتے لاشے ہمیں یہ احساس دلاتے ہیںکہ انسان نے اپنی عقیدت کو آلودگی میں بدل دیا ہے۔امریکا کا مسی سیپی دریا، جسے امریکہ کا خونِ رواں کہا جاتا ہے،اب اپنی ندیوں میں صنعتی فضلہ، کیمیکل اور زہریلا پانی بہا رہا ہے۔جہاں کبھی اس کے کنارے نیلا آسمان جھکتا تھا، اب وہاں دھواں اٹھتا ہے۔سائنس دان خبردار کر رہے ہیں کہ اگر یہی رفتار رہی تو مسی سیپی کا نقشہ اگلی صدی تک بدل جائے گا۔
روس کا وولگا، یوکرین کا دنیپر، یورپ کا رائن اور جنوبی امریکہ کا ایمازون یہ سب دریا انسان کی بقا کی داستان تھےمگر اب اس کے زوال کی دلیل بن رہے ہیں۔ایمازون کے جنگلات جلنے سے دریا کا درجہ حرارت بڑھ چکا ہے۔رائن کا پانی کم ہو رہا ہے، جس سے پورے یورپ کی تجارت متاثر ہے۔دنیپر پر جنگ کے سبب آلودگی بڑھ گئی ہے، اور وولگا اپنی جھیلوں سے رشتہ توڑ رہی ہے۔دنیا کے یہ سب دریا اب انسان سے ایک ہی بات کہہ رہے ہیں’’ہم بہنا چاہتے ہیں، تم نے ہمیں روکا کیوں؟‘‘تاریخ گواہ ہے کہ جس قوم نے دریا سے بغاوت کی اس کا نام پھر صرف کتابوں میں باقی رہا۔بابل ہو یا نینوا، ہڑپہ ہو یا ممفیس سب نے دریا کو روکا، پھر خود رک گئے۔آج ہم وہی غلطی دہرا رہے ہیں۔ہم نے دریاؤں کو نفع نقصان کی زبان میں تولنا شروع کیا ہے جبکہ دریا حساب نہیں مانگتے صرف احترام چاہتے ہیں۔موصل کے مقبرے جب ظاہر ہوئے تو سائنس دان خوش تھے کہ تاریخ کا ایک اور باب مل گیا۔
مگر دراصل یہ خوشی نہیں — یہ انتباہ ہے ایک خاموش صدا جو وقت کے اندر سے آرہی ہے۔زمین کہہ رہی ہے’’میں نے تمہیں دیا، تم نے مجھ سے چھینا اب میں اپنے خزانے واپس لے رہی ہوں‘‘ شاید یہی وہ لمحہ ہے جب انسان کو تھم جانا چاہیے۔دریا ہمیں سبق دے رہے ہیں کہ وقت ہمیشہ بہتا رہتا ہے مگر انسان اگر رک جائے تو دریا اسے پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔موصل کے خشک کناروں پر جھلملاتے قدیم نقوش یہ کہتے ہیں کہ تہذیبیں پانی سے بنتی ہیںاور جب پانی روتا ہے تو تاریخ ماتم بن جاتی ہے۔دنیا بھر کے دریا ہمیں اپنی زبان میں ایک ہی بات کہہ رہے ہیں’’ہماری روانی تمہاری زندگی ہے، ہم سوکھ گئے تو تم مٹ جاؤ گے‘‘-
اب یہ ہم پر ہے کہ ہم زمین کے اس پیغام پر اپنے کان دھریں۔یا پھر کل ہماری اپنی عمارتیں، ہمارے اپنے شہر کسی خشک جھیل کی تہہ سے برآمد ہوں اور آنے والے لوگ حیران ہوں کہ یہ وہی انسان تھےجنہوں نے دریا مار دیے اورپھر خود بھی پانی کے بغیر مٹ گئے۔وقت خاموش ہے مگر زمین بول رہی ہے۔پتھروں میں، ریت میں، سوکھے دریاؤں کے کناروں پرکہیں نہ کہیں ایک صدا ہے جو انسان کو یاد دلاتی ہے کہ زندگی بہاؤ کا نام ہے اورجو رک جاتا ہے وہ مٹ جاتا ہے۔یہ دریا جو اب پیاسے ہیں کبھی ہماری پہچان تھے۔اب وہ ہم سے اپنی روانی نہیں مانگتے صرف تحفظ وفاداری چاہتے ہیں۔دعا ہے کہ ہم ان کی فریاد سن لیں کہ زمین کا صبر لامحدود نہیں اورپانی اگر روٹھ گیا تو تاریخ کی اگلی تحریر میں شاید ہماری کہانی صرف ایک صفحے کی گرد بن کر رہ جائے گی۔