• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں زبانوں کی بالادستی اور کشاکش پر بڑے عرصے سے بحث و مباحثہ جاری ہے بلکہ جب پاکستان مشرقی اور مغربی حصوں میں منقسم تھا تو اس وقت بھی یہ تنازعہ زور پکڑ گیا تھا کہ قومی زبان کیا ہو اور اسی پر مناقشہ شروع ہوا جو بعد ازاں بنگلہ دیش پر منتج ہوا۔ سندھی، اردو، سرائیکی، پنجابی، بلوچی، پشتون، کشمیری، براہوی اور ہندکو زبانوں کے تحفظ اور کلچرل شناخت کے حوالے سے بڑی بحث چل رہی ہے۔ اس حوالے سے صوبائی اور وفاقی سطح پر ادارے بھی بنائے گئے ہیں جو ان زبانوں کی ترویج و اشاعت کیلئے حتی المقدور کام بھی کررہے ہیں۔ لیکن انکے علاوہ چھوٹی زبانیں اپنے بچاؤ کیلئے ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں تو ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

زبانوں کے تنوع کے لحاظ سے دیکھا جائے تو گلگت بلتستان کو پاکستان کے دیگر صوبوں پر فوقیت حاصل ہے یہاں آٹھ کے قریب زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں سے اکثریت ہند آریائی، ایک تبتو برمن خاندان سے جبکہ ہند ایرانی اور نامعلوم خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ہند آریائی کی داردک شاخ سے شنا، کھوار، ڈوماکی، جبکہ بلتی زبان تبتو برمن کی ایک شاخ، گوجال ہنزہ کی وخی ہند ایرانی اور بروشسکی کا ابھی خاندانی پس منظر واضح نہیں ہوا ہے رائج العمل ہیں۔یونیسکو کی ایک رپورٹ کے مطابق معدومیت کے خطرے سے دوچار زبانوں کی فہرست میں گلگت بلتستان کی یہ متذکرہ زبانیں شامل ہیں۔ گزشتہ دنوں اسکردو میں اکادمی ادبیات پاکستان کے تحت پہلی مرتبہ دور روزہ ادبی کانفرنس ’ ادبیات گلگت بلتستان: معاصر تناظر‘کے عنوان سے منعقد ہوئی۔ اس کانفرنس میں گلگت بلتستان کی معدوم ہونے والی زبانوں کے تحفظ کے حوالے سے ملکی سطح کی عدم توجہی پر گلگت بلتستان کے قلم کاروں کی گفتگو میں بے چینی صاف جھلک رہی تھی۔

1947-48 ءکی جنگ آزادی کے بعد گلگت بلتستان کا علاقہ پاکستان کے زیر انتظام آیا اس سے پہلے 1840 ءتک جموں و کشمیر کی ڈوگرہ حکومت کے زیر دست رہا ہے۔ ڈوگرہ عہد میں سرکاری زبان فارسی تھی اور تمام دفتری کارروائی فارسی میں تھی مگر 1914-16 کی بندوبست اراضی میں اردو استعمال کی گئی ہے۔ تاہم زمین ، کھیت کھلیان ، قومیتوں اور دیگر رسم و رواج کا ذکر علاقہ ہائے گلگت و استور میں شنا جبکہ بلتستان میں بلتی اور شنا کے فرہنگ اردو میں لکھے گئے ہیں۔ 1935 میں جب انگریزوں نے اپنی 1879 میں قائم کردہ گلگت ایجنسی کو مزید ساٹھ سال کے لئے ایک طرح سے لیز پر لیا تو ایجنسی کےعوام سے بہتر رابطے میں رہنے کے لئے غیر مقامی افسران اور ذمہ داروں کو شنا زبان سیکھنا اور پڑھنا لازمی قرار دیا۔

اس ضمن میں ڈاکٹر شجاع ناموس جن کا تعلق بہاولپور سے تھا اور وہ ماہر تعلیم تھے انہیں باقاعدہ شنا کورس ترتیب دینے کی زمہ داری دی گئی لہذا انہوں نے گلگت میں اپنی تعیناتی کے دوران نہ صرف کورس مرتب کیا بلکہ شنا زبان کے نام سے ایک ضخیم کتاب بھی لکھ ڈالی۔ یہ مثالیں یہ ثابت کرتی ہیں کہ اس وقت  سرکاری سطح پر علاقائی زبان کو کس حد تک اہم سمجھا گیا تھا۔انیسویں صدی عیسوی میں مشتشرقین کی ایک بڑی تعداد گلگت بلتستان کی سیاحت ، کوہ نوردی اور جغرافیائی معلومات کے حوالے سے یہاں پہنچی اور انہوں نے یہاں کی تہذیب وثقافت پر گراں قدر کام کیا۔ انہوں نے نہ صرف اس خطے کی گریٹ گیم کے تناظر میں اہمیت کو اجاگر کیا بلکہ یہاں بولی جانے والی زبانوں اور لہجوں کی لسانی درجہ بندی اور دستاویز کاری کیلئے بھی محنت کی اور مضامین اور کتابیں شائع کیں۔ 1947ءکے بعد سے اب تک جس طرح گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کا تعین صحیح طریقے سے نہیں ہوا ہے چہ جائیکہ یہاں کی زبانوں کی تحفظ اور ترویج پر کام ہو۔

چھوٹی زبانوں کے بچاؤ کی اہمیت خاص طور پر گلگت بلتستان میں بولی جانے والی زبانوں کی کئی پہلوؤں سے نہایت زیادہ ہے۔ ایک تو یہ کہ ان کے تحفظ سے نہ صرف یہاں کا ثقافتی ورثہ اور شناخت زندہ رہیں گے بلکہ صدیوں سے مستعمل مقامی علم و دانش کی زندگی کا دارومدار بھی ان چھوٹی زبانوں کے تحفظ سے منسلک ہے۔علاوہ ازیں زبانوں کے تحفظ کے نفسیاتی اور سماجی پہلو بھی ہیں مادری زبان میں تعلیم اور اظہار خیال فرد کے اعتماد اور ذہنی نشوونما کے لئے نہایت اہم ہے۔ زبان کے بچاؤ سے افراد اور برادریوں میں احساسِ وابستگی اور خودی مضبوط ہوتی ہے۔ نیز زبان نسل در نسل رابطے کا ذریعہ ہے۔ اگر چھوٹی زبانیں ختم ہو جائیں تو آنے والی نسلیں اپنی جڑوں اور آباؤ اجداد سے کٹ کر رہ جائیں گی۔

اس حوالے سے گلگت بلتستان کے محققین اور ادباء کی انفرادی کوششیں دکھائی دیتی ہیں تاہم صوبائی اور وفاقی حکومتی سطح پر اب تک کوئی قابل قدر کام نہیں ہوا ہے۔ شنا، بلتی ، بروشسکی ، کھوار، وخی اور ڈوماکی کی تشریح و ترویج کے لئے انفرادی سطح پر کام کیا جارہا ہے۔مقامی ادیبوں نے املائی نظام وضع کرنے کی کوشش کی ہے اور قاعدے مرتب کئے ہیں لیکن عملی نفاذ کے لئے کوئی پالیسی فریم ورک موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہ اہم کام طاق نسیاں کی نذر ہوا ہے۔ جبکہ کچھ علاقائی ادبی تنظیمیں بھی اپنی مدد آپ کے تحت ہاتھ پاؤں مار رہی ہیں۔

فورم فار لینگویج انیشیوز (FLI) کے نام سے  اسلام آباد میں قائم ایک نجی ادارہ گلگت بلتستان اور چترال کی معدوم ہونے والی زبانوں کے تحفظ کے لئے اپنے تعین جدوجہد کررہا ہے۔ اس ادارے کے تحت ان متذکرہ زبانوں کی اکثریت کی فرہنگ الفاظ، لوک کہانیاں، ڈکشنری اور بول چال کی کتابیں شائع ہوئی ہیں۔گلگت بلتستان میں دو جامعات قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف بلتستان قائم کی گئی ہیں مگر ان دونوں یونیورسٹیوں میں مقامی زبانوں کی ترقی وترویج اور فروغ کے حوالے سے کوئی پروگرام موجود نہیں اور نہ ہی کوئی صوبائی سطح کا ادبی بورڈ موجود ہے۔

تازہ ترین