• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یوں تو ہم دوستوں نے متفقہ قرارداد منظور کی ہوئی ہے کہ کام دھندے سے فارغ ہونے کے بعد شام کی مجلس میں کوئی سنجیدہ بات نہیں کرنی، مگر ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی دوست اِس قرارداد کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوجاتا ہے اور پھر بات کہیں سے کہیں جا نکلتی ہے۔ اُس روز بھی یہی ہوا، ایک دوست نے ’ہاؤس‘ کے سامنے سوال رکھا کہ اگر کوئی مذہبی گروہ جلوس نکالتا ہوا اسلام آباد کی طرف مارچ کرے تو کیا جواب میں حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ اُس گروہ کو روکنے کیلئے طاقت کا اِس قدر اندھا دھند استعمال کرے کہ درجنوں لاشیں گرا دی جائیں؟ آخر ریاست قانون کے مطابق ایسے مذہبی گروہوں پر مقدمے بنا کر مجرمان کو سزا کیوں نہیں دلواتی، آئین اور قانون سے کھلواڑ کیوں کرتی ہے؟ تمام دوستوں نے اپنے اپنے دلائل دیے، ہاؤس کا رجحان اِس طرف تھا کہ ریاست نے اِس مرتبہ مذہبی گروہ کے خلاف جو کارروائی کی وہ دیر آید درست آید تھی، لیکن سوال اٹھانے والے دوست کی دلیل یہ تھی کہ چونکہ آپ سب اُس مذہبی گروہ کے متشدد نظریات کے خلاف ہیں اِس لیے آپ کو ماورائے قانون کارروائی پر کوئی اعتراض نہیں، جبکہ آپ کو کسی گروہ یا جماعت کے حق یا خلاف نہیں بلکہ آئین اور قانون کے ساتھ کھڑے ہونا چاہیے۔ ہم نے جواب میں کہا: یہ بات ہے تو چلو ’پڑتال‘ کر کے دیکھتے ہیں۔

محفل میں جو سوال پوچھا گیا اُس میں دو مفروضے تھے، پہلا، پولیس نے غیر متناسب طاقت کا استعمال کیا اور دوسرا، اِس کارروائی کے نتیجے میں سینکڑوں ہلاکتیں ہوئیں۔ دوسرے مفروضے کا جواب پہلے دیتے ہیں۔ سن47 سے لیکر آج تک پاکستان میں جتنی بھی ایسی کارروائیاں ہوئی ہیں اُن میں ہمیشہ اسی طرح ہلاکتوں کے مبالغہ آمیز دعوے کیے گئے ہیں، آج کی تاریخ میں اگر ایک شہری بھی ہلاک ہو جائے تو اُس کی پردہ پوشی کرنا ممکن نہیں اِلا یہ کہ سینکڑوں ہلاکتوں کا الزام لگایا جائے۔ وہ مذہبی گروہ جسکے خلاف یہ کارروائی ہوئی، اُس کے لاکھوں حمایتی موجود ہیں، وہ کسی بھی پلیٹ فارم پر ہلاکتوں کی فہرست جمع کروا سکتے ہیں، مگر ایسا نہیں ہوا۔ رہی بات غیر متناسب طاقت کے استعمال کی تو یہ فیصلہ موقع پر موجود پولیس افسر کرتا ہے، قانون یہ کہتا ہے کہ طاقت کا کم سے کم استعمال کیا جائے، اب اگر دس ہزار کا مجمع تھا (یہ اُس گروہ کا دعوی ہے) جسے منتشر کرنا تھا اور اُس میں ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے جان قربان کرنے کی قسم کھائی ہوئی تھی تو ایسے گروہ کو دارالحکومت جانے سے روکنے کیلئے کتنی طاقت کا استعمال کرنا تھا، یہ بات ہم کسی ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر طے نہیں کر سکتے، خاص طور پر اُس وقت جب گیارہ پولیس والے بھی شہید کر دیے جائیں۔ اب آتے ہیں کلیدی سوال کی طرف کہ کیا یہ کارروائی ماورائے آئین اور قانون تھی!پُر امن جلسے جلوس آزادئ اظہار کے بنیادی حقوق کے زمرے میں ہی آتے ہیں، البتہ مسلح گروہ شرعاً اور قانوناً قابل تعزیر ہیں، مادر پدر آزادی کا کسی معاشرے میں کوئی تصور نہیں، اِسلامی فقہ میں اسے خرابہ کہا جاتا ہے، سزا بھی سنگین ہے، جبکہ پاکستان کے آئین کی شق 256کہتی ہے کہ ”کوئی نجی تنظیم جو ایک فوجی تنظیم کے طور پر کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو، تشکیل نہیں دی جائے گی، اور ایسی کوئی بھی تنظیم غیر قانونی ہوگی۔“ ریاستی طاقت کے استعمال میں متناسب قوت کی حدود ویسے تو ہر صورتحال کے مطابق ڈیوٹی آفیسر کی فیصلہ ساز دانشمندی پر منحصر ہوتی ہے، 1988ءمیں عدالت عظمیٰ اپنے ایک مشہور فیصلے میں اِس کی حدود و قیود طے کر چکی ہے۔ قومی ایمرجینسی کے دوران کسی اہلکار سے قانون کے نفاذ کے دوران کمی بیشی ہو جائے تو آئین کی شق 237کے تحت پارلیمنٹ موثر با ماضی استثناء دینے کی مجاز ہے۔ یہ تمام آئینی شقیں ذہین نشین کر لیں اور یاد کریں جب1979ءمیں امریکی سفارت خانے کو آگ لگائی گئی تھی جو کہ ایک بین الاقوامی معاہدے کی خلاف ورزی تھی، اسکے بعد سے اسلام آباد میں جلسے جلوسوں کی مکمل ممانعت ہے اور خلاف ورزی کی سزا سات برس ہے۔ جس مذہبی گروہ کا یہاں ذکر ہے اُس نے لاہور سے مارچ کرکے اسلام آباد امریکن سفارت خانے تک جانا تھا اور اِنکا ماضی کا ٹریک ریکارڈ بچے بچے کو پتا ہے، یہ احتجاج By any stretch of the imagination پُر امن نہیں ہوتا اور اِس میں تشدد شامل ہو جاتا ہے، شاہراہیں بند کر دی جاتی ہیں، لوگوں کو ذلیل و خوار کیا جاتا ہے، اُن سے ایمان کے سرٹیفکیٹ طلب کیے جاتے ہیں، قتل کے فتوے لگائے جاتے ہیں، عوامی املاک کو نذر آتش کیا جاتا ہے، اور پورے ملک کو یرغمال بنا لیا جاتا ہے۔ یہ ہوتے ہیں وہ حالات جن میں ریاست کو اس اجتماع کو منتشر کرنے کا آئینی حق حاصل ہو جاتا ہے۔ سو، یہ تو ہوئے آئین اور قانون کے حوالے۔ اب رہ گئی فلسفیانہ بحث۔ تھامس ہابز نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”لیوایتھن“ (Leviathan) میں عمرانی معاہدے کا نظریہ پیش کیا۔ ہابز کا استدلال تھا کہ ریاست کے بغیر انسانی معاشرہ ایک فطری حالت میں ہوتا ہے جہاں ہر انسان دوسرے انسان کیلئے خطرہ ہے اور زندگی ” تنہا، غلیظ، وحشیانہ اور مختصر“ ہوتی ہے۔ دائمی خوف اور انتشار سے نجات حاصل کرنے کیلئے انسان اپنے کچھ اختیارات ایک حاکمِ اعلیٰ (یعنی ریاست) کو سونپ دیتے ہیں جسکے بدلے میں ریاست ان کی جان، مال اور امن و امان کی ضمانت دیتی ہے۔ اِس نظریے کی روشنی میں جب ہم اُس مذہبی گروہ کے اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں جو ماضی میں بارہا قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ آور ہوا، ملک کی مرکزی شاہراہوں کو ہفتوں تک مفلوج رکھا اور ریاست کی عملداری کو کھلے عام چیلنج کیا، تو یہ دراصل اسی عمرانی معاہدے کی روح کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ ہابز کے مطابق ایسی بغاوت کو کچلنا اس کا اولین اور بنیادی فریضہ ہے، اگر ریاست اس میں ناکام رہتی ہے تو وہ اپنے وجود کا جواز ہی کھو دیتی ہے۔ میکس ویبر نے ریاست کی جو مشہور زمانہ تعریف بیان کی وہ آج بھی تسلیم کی جاتی ہے کہ ایک مہذب معاشرے میں تشدد یا طاقت کا استعمال صرف اور صرف ریاست کا اختیار ہے۔ جب کوئی غیر ریاستی گروہ، خواہ اس کے مقاصد کچھ بھی ہوں، ہتھیار اٹھاتا ہے یا منظم طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ ریاست کی اسی اجارہ داری کو براہِ راست للکارتا ہے۔ لہٰذا ریاست کا اپنے خلاف اٹھنے والی کسی بھی مسلح یا پرتشدد تحریک کے خلاف کارروائی کرنا ایک ناگزیر قدم ہوتا ہے۔

انگریزی کا محاورہ ہے، Damned if you do and damned if you don’t، یہی ہمارا حال ہے، جب مذہبی جنونیوں نے ملک کو یرغمال بنایا ہوا تھا تو لوگ کہتے تھے گولی کیوں نہیں چلاتے، اب چلائی تو کہتے ہیں، گولی کیوں چلائی!

تازہ ترین