• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وطن عزیز میں ایک بار پھر عدلیہ کی آزادی کی مہم چلائی جارہی ہے۔26ویں آئینی ترمیم کے خلاف سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدور،وکلا تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کی درخواستوں پر سماعت کا سلسلہ جاری ہے۔آئینی بنچ سے یہ فرمائش کی جارہی ہے کہ چونکہ یہاں مسند نشین جج صاحبان بینیفشری ہیں اس لیے وہ یہ مقدمہ نہ سنیں اور اکتوبر2024ء سے پہلے سپریم کورٹ میں جو 16جج صاحبان خدمات سرانجام دے رہے تھے،وہ انصاف فراہم کریں۔آئینی بنچ کے نزدیک یہ مطالبہ ”انوکھا لاڈلا کھیلن کومانگے چاند“جیسا ہے۔مگر جناب اکرم شیخ ایڈوکیٹ نے غالب کے الفاظ مستعار لیکر فرمایا’’غلط ہے جذب دل کا شکوہ دیکھو جرم کس کا ہے...نہ کھینچو گر تم اپنے کو کشاکش درمیاں کیوں ہو‘‘یعنی محبوب کا یہ گلہ کہ محب کی چاہت نے مشکل میں ڈال رکھا ہے،درست نہیں۔تم سوچتے ہو کہ کشش دل نے پریشان کررکھا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ تمہاری مزاحمت اس کشمش کا سبب ہے۔اگر تم خود سپردگی پر تیار ہوجاؤ تو کھینچاتانی کا یہ سلسلہ بند ہو جائے اور ہم دونوں کو قرار آجائے۔سپریم کورٹ بار کے سابق صدر اکرم شیخ ایڈوکیٹ کمال کا ادبی ذوق رکھتے ہیں مگر آئینی بنچ کا اصرار یہ رہا کہ آرٹیکل 191Aکی ذیلی شق 3کے تحت ماسوائے آئینی بنچ کے کسی اور بنچ کو آئینی معاملات کی سماعت کا اختیار نہیں تو یہ معاملہ کسی اور بنچ کے سپرد کیسے کردیا جائے؟یہ سوال بھی کیا گیا کہ کیا آپ آئینی بنچ کو غیر آئینی سمجھتے ہیں؟ اس پر اکرم شیخ ایڈوکیٹ نے فرمایا،مجھ پر تو یزید کی بیعت لازم نہیں۔حسین ؓ سے دوستی،یزید کو بھی سلام،میں تو یہ نہیں کرسکتا۔مگر دِقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں کب کسے یزید قرار دے دیا جائے،کچھ کہہ نہیں سکتے۔آئینی بنچ کے سامنے دلائل دینے کے بعد میری اکرم شیخ ایڈوکیٹ صاحب سے تفصیلی ملاقات ہوئی تو اپنے اشکالات انکے سامنے رکھے اور استفسار کیا کہ آپ کو کس بات پر اعتراض ہے،کیوں یہ لگتا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کی آزادی سلب کرلی گئی ہے؟کیا آپ کو آرٹیکل 175Aکے تحت ججوں کی تعیناتی کے طریقہ کار سے اختلاف ہے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے سینئر موسٹ جج کے بجائے سنیارٹی میں سرفہرست تین ججوں میں سے کسی کو ایک چیف جسٹس بنانا غلط ہے؟آرٹیکل 191Aکے تحت آئینی بنچوں کی تشکیل سے عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑگئی ہے؟184(3)کے تحت حاصل اختیارات جنہیں انتظامی معاملات میں مداخلت کیلئے استعمال کیا جارہا تھا،ان کو محدود کر دینے سے مسئلہ ہے یا پھر بنچ فکسنگ ختم ہوجانے اور چیف جسٹس کے اختیارات کم کردینے پر شکایت ہے؟اکرم شیخ ایڈوکیٹ ماضی میں بیشمار مواقع پر زیر عتاب رہے اور انہی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا کہ جناب چیف جسٹس،جسٹس سجاد علی شاہ نے ایسے اشخاص کو جج تعینات کردیا جنہوں نے کبھی عدالت کی شکل نہیں دیکھی تھی۔انہوں نے ایک مضمون لکھا تو توہین عدالت کا نوٹس مل گیا۔اکرم شیخ ایڈوکیٹ نے نامساعد حالات کا سامنا کرنےکیلئے اپنے ساتھی وکلا کی تائید و حمایت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں بطور امیدوار سامنے آگئے۔وکلا نے انہیں واضح اکثریت سے صدر منتخب کرلیا تو ایک نیا مسئلہ اُٹھ کھڑا ہوا۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دیگر جج صاحبان نومنتخب صدر سے حلف لینے سے گریزاں تھے اور انکا موقف تھا کہ توہین عدالت کا مرتکب شخص سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا صدر نہیں بن سکتا۔جسٹس سجاد علی شاہ نے اکرم شیخ ایڈوکیٹ کو کہا،آپ نوازشریف کے بندے ہیں۔لیکن چیف جسٹس کو یقین دلایا گیا کہ جب بھی عدلیہ کی آزادی پر حرف آئے گا وکلا آپ کے ساتھ کھڑے ہونگے۔اور پھر جب انسداد دہشتگردی کی عدالتیں بنانے کے فیصلے پر وزیراعظم نوازشریف اور چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے درمیان ٹھن گئی تو سب سے پہلے اکرم شیخ ایڈوکیٹ سڑکوں پر نکلے۔میں نے ان سے پوچھا،جسٹس افتخار چوہدری اور جسٹس ثاقب نثار کے ادوار میں جوڈیشل ایکٹو اِزم کے نام پر جو کچھ ہوا،کیا اسکا راستہ روکنا ضروری نہیں تھا؟پاکستان میں ایک سول جج کی بھرتی کیلئے باقاعدہ تحریری امتحان ہوتا ہے،انٹرویو کے ذریعے جانچ پڑتال کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے مگر ہائیکورٹ کا جج لگانا ہو تو کوئی طریقہ کار نہیں،کیا اس حوالے سے اصلاحات ضروری نہیں؟جناب اکرم شیخ ایڈوکیٹ نے بتایا کہ امریکہ میں سپریم کورٹ کے ججوں کو صدر تعینات کرتا ہے،کچھ ریاستوں میں ججوں کا باقاعدہ انتخاب ہوتا ہے۔نامزد جج کانگرس اور سینیٹ کے سامنے پیش ہوتے ہیں،منتخب عوامی نمائندے ایسے سوال جواب کرتے ہیں کہ بعض اُمیدوار تو اس پیشی کے خوف سے راہ فرار اختیار کرلیتے ہیں اور اپنا نام واپس لے لیتے ہیں۔لیکن یہاں پاکستان میں ججوں کی تعیناتی کیلئے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن کے 13ارکان میں سے 4ارکان پارلیمنٹ کی موجودگی بھی انہیں ناگوار گزرتی ہے اور لگتا ہے کہ عدلیہ کی آزادی چھینی جارہی ہے۔اکرم شیخ ایڈوکیٹ عدالتی نظام میں اصلاحات کے تو قائل ہیں مگر ان کا اصرار ہے کہ آئینی ترمیم آخری حل ہوا کرتی ہے۔بقول انکے ڈکٹیٹروں نے بھی عدلیہ کی آزادی پر اتنا مہلک وار نہیں کیا۔وہ پی سی او جاری کیا کرتے تھے مگر ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے والوں کے پاس یہ آپشن ہوتی تھی کہ حلف نہ لیں اور گھر چلے جائیں مگر موجودہ حکمرانوں نے تو یہ راستہ بھی نہیں چھوڑا۔اکرم شیخ موجودہ حکومت کے عہد شباب میں جینے والوں سے سوال کرتے ہیں کہ ”جینے والو!تمہیں ہوا کیا ہے“مگر ہم نے منصفوں کے عہد شباب میں بھی جی کردیکھا ہے۔عدالتی آمریت کا مزہ بھی چکھ کر دیکھا ہے۔عدلیہ آزاد ہومگر دستورکی پابند ہو،شتر بے مہار نہ ہو۔جج صاحبان آئین و قانون کے مطابق فیصلے کریں،اپنے ضمیر کی آڑ میں نظریہ ضرورت کےتحت مقننہ اور انتظامیہ کو دیوار سے نہ لگائیں۔

تازہ ترین