• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہت عرصے سے سوچتا چلا آ رہا ہوں عمران خان کے بارے کچھ لکھوں کہ وہ جو بھی ہیں جیسے بھی ہیں بہر حال ملک کی بڑی آبادی انہیں اسی طرح پسند کرتی ہے جیسے وہ مولا جٹ کو پسند کرتی تھی بلکہ ایک دفعہ انڈیا کے سفر کے دوران بمبئی میں ایک ٹیکسی ہائر کی تو وہ مجھے منزل مقصود پہنچانے تک ہماری فلم مولا جٹ کے ڈائیلاگ ببانگ دہل دہراتا رہا۔ بہرحال میں عمران خان کے بارے میں بہت عرصے سے لکھنا چاہتا تھا اور ہر دفعہ یہ سوچ کر رک جاتاتھا’’ کتھے عمران خان،کتھے عطاء الحق قاسمی‘‘ اسی دوران مجھے یاد آیا ایک دفعہ انہوں نے دوران تقریر بہت غصیلی آواز میں کہا تھا ’’ عطاء الحق قاسمی میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا‘‘یعنی میں ان کی نظروں میں تھا مگر میں ڈر گیا کہ مجھے مراد سعید یاد آ گیا کتنا سوہنا منڈا اے۔ویسے بھی دو فریق ہوں راضی تو کیا کرے گا قاضی !سو میں نے آج تک اس موضوع اور اس جیسے بیسووں موضوعات پر خامہ فرسائی نہیں کی۔

مجھے عمران خان پر کبھی غصہ آتا ہے تو کبھی پیار آتا ہے۔اصل میں یہ دونوں پیار کی نشانیاں ہیں۔آپ کسی بھی ماہر نفسیات سے پوچھ لیں ،آپ تو پوچھیں گے یا نہیں البتہ ماہر نفسیات کو چاہیے کہ وہ ایک بورڈ بٹھائیں اور عمران خان کی زندگی کےتمام پیچ و خم پر غور کریں اور پھر قوم کو اپنی ہی ریسرچ کی روشنی میں بتائیں کہ آپ کا محبوب لیڈر آپ کےہی نہیں ماہر نفسیات کیلئے بھی ایک عمدہ اسٹڈی ہے۔میں نے عمران خان کو صرف ایک بار دیکھا تھا جب وہ اپنے دوسرے دوستوں کے ساتھ میری طرف سے دی گئی ہاؤس وارمنگ پارٹی میں آئے تھے۔میں نے باہر نکل کر ان کا استقبال کیا یہ ڈی ایچ اے کی ای ایم ای سوسائٹی تھی۔عمران خان نے ارد گرد نظر دوڑائی اور کہا بہت خوب صورت علاقہ ہے۔وہ اندر تشریف لائے اور کافی دیر بیٹھے رہے اس پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا مگر میں نے محسوس کیا کہ شکریہ کا حق ادا نہیں ہوا اس کے بعد میرا بنی گالا اور زمان پارک سے کبھی گزر نہیں ہوا میں بہت دیر سے کوشش کر رہا ہوں کہ اور کچھ نہیں تو جیل میں ہی ان کی زیارت ہو جائے اور میں شکریہ ادا کر سکوں مگر ظالم سماج ملنے نہیں دیتا ۔میں ابھی ایک سچی بات کہنے لگا ہوں جو بہت سے لوگوں کو پسند نہیں آئے گی وہ یہ کہ عمران خان دل کے برے نہیں ہیں مگر وہ جو کچھ کرتے ہیں اضطراری طور پر کرتے ہیں۔کسی زمانے میں انہوں نے نواز شریف کی اتنی تعریف کی جتنی قمر جاوید باجوہ کی، کی تھی۔میرا یہ محبوب لیڈر آپ یقین کریں بہت بھولا بھالا اور معصوم ہے اس کی جگہ کوئی چالاک لیڈر ہوتا تو خود کو اینٹی اسٹیبلشمنٹ کہلانے کے حوالے سے کئی جرنیلوں سے یاریاں نہ گانٹھتا، جنرل قمر جاوید باجوہ کو تو انہوں نے یہ کہہ کر باپ کا دررجہ دے دیا کہ آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے۔انہوں نے ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ سے بنائے رکھی خصوصاً جنرل فیض حمید سے تو وہ فیض یاب ہوئے جب طاہر القادری سے مل کر انہوں نے نواز شریف کے ساتھ ایک سو چھبیس دن کا طویل ترین دھرنا دیا۔اسلام آباد کے ڈی چوک میں جو کچھ ہوا ان کے حواری جو کچھ کرتے رہے وہ لکھنا حدِ ادب کے زمرے میں آتا ہے۔سپریم کورٹ کی دیواروں پر شلواریں وغیرہ لٹکائی گئیں۔پی ٹی وی اسلام آباد پر حملہ کیا گیا اس وقت پوری ریاستی مشینری عمران خان کی پشت پر تھی۔ڈی چوک کے تماشائی رات گئے تک وہاں جو کچھ کرتے رہے اس کی’’نشانیاں‘‘بعد میں صفائی کے دوران سامنے آئیں۔

میں شاید اور بھی بہت کچھ لکھتا مگر عمران خان ان دنوں جیل میں ہیں انہیں جیل میں جتنی بھی سہولتیں ملی ہوں جیل بہرحال جیل ہوتی ہے ، جیل میں وہ پارٹی لیڈروں سے ملتے رہتے ہیں اور انہیں ہدایات دیتے ہیں مگر ان میں سے کچھ پارٹی لیڈر بے ہدایتے سے ہیں۔اب کچھ عرصہ سے یہ ملاقاتیں نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں مگر بچے کو زیادہ سے زیادہ ایف اے تک رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے سو انہیں اچھی طرح معلوم ہےکہ انہوں نے کیا کرنا ہے چنانچہ وہ دوسرا آپشن استعمال کرتے ہیں سچی بات پوچھیں اگر بے بس لیڈروں کی کوئی سننے والا ہوتا تو بھی کافی ہل جل ہو سکتی تھی مگر ان کی کوئی سنتا نہیں اور یہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ ان کی کوئی سنتا نہیں۔میں یہاں قوم کی اس بدقسمتی کا ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستانیوں کو ایک عرصہ بعد ایسا لیڈر ملا تھا جسے سنا جاتا تھا مگر لیڈر کو لیڈ کرنا نہیں آیا۔اس کے باوجود کروڑوں لوگوں نے انہیں خوش آمدید کہا مگر انہیں جو رستہ دکھایا گیا وہ صرف توڑ پھوڑ کا تھا۔تحریک انصاف کو طاہر القادری اور جنرل فیض حمید کی بھر پور حمایت حاصل تھی لیکن جب جنرل تک پہنچنے کیلئے صحیح راستوں کا انتخاب نہ کیا جائے تو عوام کا جم غفیر بھی ارد گرد کی گلیوں میں بکھر کر رہ جاتا ہے اوپر سے بلنڈر یہ کیا گیا کہ حکومت کی بجائے ریاست سے ٹکرانے کی کوشش کی گئی ان شہیدوں کے مجسمے توڑے گئے جنہوں نے ملک کے دفاع کیلئے جانیں قربان کی تھیں عمران خان کو’’اندرون خانہ‘‘ صرف ہلا شیری نہیں ممکنہ امداد بھی فراہم کی گئی مگر ان کا ایک مقصد آنے والے چیف کا راستہ روکنا اور ان کی کرسی خود سنبھالنا تھا مگر اس’’جلد بازی ‘‘کا انجام یہ ہوا کہ اقتدار کی منزل بہت دور ہو گئی۔

عمران خان کے اندر اگر ایک خرابی نہ ہوتی تو وہ ملک و قوم کا ایک قیمتی اثاثہ ثابت ہوتے اور یہ خرابی ان کی خود پسندی ہے کہ وہ خود پر عاشق ہیں۔ Self Centered شخص پہلے اپنے بارے میں سوچتا ہے،بعد میں کسی اور کے بارے میں۔آپ اندازہ لگائیں موصوف نے اپنے عزیز ترین دوستوں کے جنازے میں شریک ہونا تو کجا کبھی ان سے تعزیت تک نہ کی۔ایک بہت عجیب و غریب بات جو سراسر بدتمیزی کے ذیل میں آتی ہے۔وہ مہمان کے سامنے بیٹھ کر چائے پیتے اور کھانا کھاتے ہیں اور صلح تک نہیں مارتے یہ ان کی احتیاط کا تقاضا ہے کوئی پتہ نہیں وہ احمق آدمی بسم اللہ پڑھ کر کھانا چٹ کر جائے ۔بہرحال آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ کالم لکھتے ہوئے مسلسل ایک کرب سے گزرنا پڑا پاکستانی قوم کو نواز شریف کے بعد ایک مقبول لیڈر ملا تھا اگر نواز شریف نے ملک کی تقدیر نہیں بدلی تو اسے ٹھیک راستے پر ڈالنے کی کامیاب کوشش کی تھی مگر عمران خان جو آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ ہیں تمام فیصلے بشریٰ بی بی کے ’الہامی‘ فیصلوں کے تحت کرتے رہے مجھے یہ کالم لکھ کر خوشی نہیں ہوئی ایک کسک کا اظہار تھا جو کر دیا۔

تازہ ترین