• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہالینڈ کے ایک روز نامہ نے اے بی بی کے حوالے سے بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کے سروے کے مطابق 2050 تک بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک بن جائیگا اور چین کو آبادی میں پیچھے چھوڑ جائیگا۔ بھارت ان آٹھ ممالک میں شامل ہے جنکی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے ایک اندازے کے مطابق اس وقت چین ،بھارت، بنگلہ دیش پاکستان اور سری لنکا کی آبادی باقی دنیا کی مجموعی آبادی کے لگ بھگ ہے اقوام متحدہ کے پاپولیشن ڈویژن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بھارت آبادی کے حوالے سے چین پر سبقت لے جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق بھارت کی موجودہ آبادی ایک ارب 17 کروڑ ہے جو 2050 تک بڑھ کر ایک ارب 58 کروڑ 32 لاکھ ہو جائیگی۔جبکہ چین کی موجودہ آبادی ایک ارب تیس کروڑ نو لاکھ ہو جائیگی ۔جسکے نتیجے میں بھارت چین سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائیگا اور ادھر دنیا کی آبادی جولائی 2028تک ساڑھے نو ارب تک پہنچ جائیگی۔ دنیا کی آبادی جو اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق 1970 میں 4 اعشاریہ3 ارب تھی پھر ساڑھے پانچ ارب کے لگ بھگ ہوئی اور اب جولائی تک ساڑھے چھ ارب کے لگ بھگ ہو گئی یوںتو آبادی میں تیز رفتار اضافے کی کئی وجوہات ہیں لیکن بڑی وجہ شرح اموات اور شرح پیدائش کا فرق ہے دنیا کے بیشتر ممالک میں بہتر طبی سہولتیں میسر ہونے کی بنا پر شرح اموات میں قابل قدر حد تک کمی واقع ہوئی ہے مگر دوسری طرف شرح پیدائش میں اضافہ ہوا ہے برطانوی ماہر آبادی تھامس رابرٹ نے اپنی کتاب’ ’آبادی کے اصول‘‘ میں کہا ہے کہ اگر کسی ملک کی آبادی ایک فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھے گی تو اسے دگنا ہونے کیلئے 69 سال کا عرصہ درکار ہوگا دو فیصد اضافے کی شرح سے 35 سال لگیں گے تین فیصد سالانہ کی شرح سے 23 سال اور اگر آبادی چار فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھے گی تو 17 سال بعد دوگنا ہو جائے گی۔ کچھ ماہرین کے مطابق دنیا کی آبادی میں ہر سال آٹھ کروڑ اور کچھ کے بقول ساڑھے آٹھ کروڑ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے اس اضافے کی وجہ ترقی پذیر ممالک میں بہت نمایاں ہے جبکہ ہر سال اس قدر آبادی کا بوجھ برداشت کرنا ان ممالک کی بساط سے باہر ہے اگر کسی طرح ٹیکنالوجی میں ترقی اور سرمائے میں اضافے کی وجہ سے پیداواری صلاحیتوں میں کچھ بہتری ہو بھی جائے تو بہت کم وقت میں آبادی کا بڑھتا ہوا طوفان اس پر غالب آ جاتا ہے جس سے طلب اور رسد میں توازن قائم رکھنا محال ہو جاتا ہے بعض ترقی پذیر ممالک میں افزائش آبادی کی شرح چار فیصد سالانہ تک ہے لیکن اسکے برعکس بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے جبکہ دنیا کی تقریباً 77 فیصد آبادی ترقی پذیر ممالک میں رہائش پذیر ہے اور ان کے باشندوں کی متوقع عمر اوسطاً 52 سال تک ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک کے باشندوںکی اوسطاً عمر 80 سال سے زائد تک جا پہنچی ہے ترقی پذیر ممالک میں بچوں کی زیادہ تعداد اور کم عمری کی اموات سے اس حقیقت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کمانے والوں اور ان پر انحصار کرنے والوں کی تعداد میں توازن نہیں ہے علاوہ ازیں سہولتوں کا فقدان نا خواندگی اور دوسری کئی وجوہات ایسی ہیں جنکی وجہ سے شرح اموات بلند ہے۔ پاکستان و عرب ممالک کی آبادی کے دوگنا ہونے کی مدت تین فیصد کے حساب سے 23 سال بنتی ہے کیونکہ پاک عرب میں نو عمری یا جلد شادی کا رواج ہے اور لوگ بڑے کنبے کو ترجیح دیتے ہیں اسکے برعکس یورپ میں 1965 کے بعد سے خواتین میں کم بچوں کو جنم دینے کے رواج کے باعث یہاں شرح آبادی 0.24تک کم ہو کر رہ گئی ہے جبکہ پاکستان کی شرح 6.6 فی عورت ہے اس طرح جاپان کی شرح آبادی0.43فیصد ہے 1960کے بعد دنیا میں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کو اپنانے کا عمل تیز ہوا ہے اس منصوبے پر عمل کرنے والوں کی تعداد ترقی یافتہ ممالک میں 10 فیصد سے بڑھ کر 51 فیصد ہو گئی ہے لیکن بدقسمتی سے برصغیر کے ممالک میں یہ شرح اب بھی 8 فیصد سے آگے نہیں بڑھی بیشتر ممالک میں خاندانی منصوبہ بندی کو ابتدائی صحت کا حصہ بنایا گیا ہے میرے حساب سے خاندانی منصوبہ بندی کا مطلب محض مانع حمل یا دوسرے طریقوں کا عام کرنا نہیں بلکہ یہ ایک طرز زندگی اور طرز معاشرت ہے آبادی میں اضافہ جہاں قدرتی وسائل کو تیزی سے کھا رہا ہے وہاں انسانی زندگی کے معیار کو بھی گھٹا رہا ہے ایسے حالات میں ماہرین معیشت ،سوشل ورکر ،ماہرین آبادی اور عام شہری بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول پانے کیلئے اپنے اپنے محاذ پر’’جہاد‘‘ کریں ۔

تازہ ترین