• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومت کے جاری کردہ اعدادو شمار کے اعشاریے ظاہر کررہے ہیں کہ ملکی معیشت بتدریج بحال ہورہی ہے۔ مہنگائی میں کمی کا رجحان ہے بیروزگاری پر قابو پانے کی تدابیر رنگ لا رہی ہیں اور ملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ مئی کی جنگ میں بھارت کو شکست دینے کے نتیجے میں پاکستان کا وقار دنیا بھر میں بلند ہوا ہے۔ امریکہ نے سفارتی قبلہ تبدیل کرکے اپنا رخ پاکستان کی طرف کرلیا ہے۔ دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے افغانستان کو جو سبق سکھایا ہے اس کے مثبت نتائج کی توقع کی جارہی ہے۔ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی ادارے پاکستان کی معاشی ترقی کی گواہی دے رہے ہیں۔ سعودی عرب سے دفاعی معاہدے نے عالم اسلام میں تحفظ کا احساس اجاگر کیا ہے۔ سمندر میں تیل اور گیس کی تلاش کیلئے ترکی سے معاہدہ ہوگیا ہے جو پاکستا ن کو ان دونوں شعبوں میں خود کفالت کی منزل پر پہنچائے گا۔ تنازع کشمیر پر سوئے ہوئے عالمی ضمیر میں ایک بار پھر ارتعاش نے بھارت کو پچھلے قدموں پر لاکھڑا کیا ہے پاکستان میں عالمی سرمایہ کار کمپنیوں کی دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ جہاں بعض سرمایہ کار ملک سے جانے کیلئے پرتول رہے ہیں، وہاں بہت سے نئے سرمایہ کار یہاں آنے کے منصوبے بنا رہے ہیں۔ اس سے نہ صرف ملک کی معاشی حالت میں بہتری آئے گی بلکہ روزگار کے مواقع میں بھی اضافہ ہوگا اور ہنرمند افرادی قوت مشرق وسطیٰ اور یورپ جانے کی بجائے مادر وطن میں اپنی صلاحیتیں آزمائے گی اور اپنے خاندانوں کے ساتھ ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرے گی۔ محکمہ شماریات کے تخمینے یہ بھی بتا رہے ہیں کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے سے پاکستان کی مالی مشکلات بڑی حد تک دور ہوگئی ہیں۔ معاشی استحکام آنے سے حکومت عوام کو سہولتوں کے ایسے امدادی پیکیجز دینے کے قابل ہوچکی ہے، جن کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاتا تھا۔ صنعتوں اور کسانوں کیلئے وزیراعظم کا روشن معیشت پیکیج اسی کا نتیجہ ہے۔ انہیں تین سال تک رعایتی نرخ پر بجلی ملے گی اور اس رعایت کا بوجھ گھریلو صارفین یا دوسرے شعبوں پر نہیں ڈالا جائے گا۔ قرضوں سے بھی نجات ملے گی اور نئے کاروبار میں حائل رکاوٹیںبھی دور ہوجائیں گی۔

موجودہ حکومت تمام تر سیاسی، سماجی اور معاشی مشکلات کے باوجود جس تندہی اور بالغ نظری سے قومی مسائل پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے، اسے ملک میں تحسین کی نظر سے دیکھا جارہا ہے مگر کچھ معاملات اس کے بس سے باہر بھی ہیں۔ ان معاملات کو یکسو کرنےکیلئے وہ کوششیں تو کرسکتی ہے مگر ان کے یقینی طور پر بارآور ہونے کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ ان میں وہ ناگہانی سانحات اور مشکلات سرفہرست ہیں جو قدرت کی طرف سے نازل ہوتی ہیں۔ اس وقت سرفہرست ماحولیاتی تبدیلیوں کا معاملہ ہے۔ گلوبل وارمنگ سے گلیشیر پگھل رہے ہیں، جو پانی کا سر چشمہ اور سیاحت کی کشش تھے۔ سب سے تشویشناک بات فضائی آلودگی ہے، جسکے منفی اثرات پاکستان کو بھگتنا پڑ رہے ہیں، حالانکہ اس کی ایک فیصد ذمہ داری بھی اس پر عائد نہیں ہوتی۔ پاکستان کو اکتوبر سے جنوری کے آخر تک اسموگ (دھند) کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں، فیکٹریوں، صنعتی مشینری اور اینٹوں کے بھٹوں وغیرہ سے جنم لیتا ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے متاثر ہونے والا ملک ہے۔ ساری دنیا اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے۔ بھارت پاکستان کے خلاف اس موسمیاتی اور ماحولیاتی جارحیت کا سب سے بڑا مجرم ہے۔ مشرقی پنجاب اور دوسرے علاقوں میں فصلوں کی کٹائی شروع ہوتی ہے تو کسان بے دریغ ان کی باقیات کو جلاتے ہیں، جس سے ان کا دھواں اور مضر ذرات ہوائوں کے ذریعے پاکستان کی فضا کو آلودہ کرتے ہیں۔ بھارتی حکومت اس عمل کو روکنے کی بجائے خبث باطن کے طفیل اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، حالانکہ خود اس کے اپنے شہر بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ نئی دہلی اور کولکتہ دنیا کے سب سے آلودہ شہر ہیں۔ تیسرے نمبر پر لاہور ہے، جو پاکستان کے شہروں میں پہلے نمبر پر ہے۔ ہوائیں، دھواں اور آلودگی پھیلانے والے ذرات پاکستان کے تمام بڑے شہروں تک پھیلاتی ہیں، جن سے انسانوں کے علاوہ حیوانات، نباتات اور جمادات تک متاثر ہوتے ہیں۔ گلے کی بیماریوں میں اسی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اضا فہ ہوا ہے۔ معیشت پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ خاص طور پر زرعی پیداوار میں کمی آتی ہے۔

پاکستان میںاس مرتبہ پچھلےبرسوں کی طرح سیلاب نے بھی تباہی مچائی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے کم سے کم 10 اضلاع میں822 ارب روپے کا نقصان ہوا اور بہت سی جانیں، مکانات گرنے یا سیلابی ریلوں میں بہنے سے ضائع ہوئیں۔ پاکستان کے بارے میں پیش گوئی کی جارہی ہے کہ اس مرتبہ اسے سرد ترین موسم کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کے اپنے منفی نتائج ہیں۔ قدرتی آفات نے اسے پہلے ہی مشکلات میں ڈال رکھا ہے، اس کے باوجود حکومت نے نقصانات کی تلافی کے لیے غیر ملکی امداد کی اپیل نہیں کی اور خود اپنے وسائل پر بھروسہ کیا ہے جو اچھی بات ہے، مگر عملی طور پر ہمارے وسائل موجودہ صورت حال کے مقابلےکیلئے کافی نہیں۔ بیرونی امداد ضرور لینی چاہیے تھی، حکومت سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے اینٹی سموگ آپریشن پر بھی توجہ دے رہی ہے۔ ماحولیاتی مسائل حل کرنے کے لیے حکومت نے56ارب روپے کے دو بڑے منصوبوں کی منظوری دی ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا سمیت چاروں صوبوں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کیلئے فنڈز مہیا کیے جارہے ہیں۔ ان مثبت اقدامات سے معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہوسکتی ہے۔ حکومت کو بلاتخصیص ایسی کوششیں جاری رکھنی چاہئیں۔

تازہ ترین