مدوّن و مرتب: عرفان جاوید
(محمد عاطف علیم)
محمّد عاطف علیم، منفرد ناول اور ڈراما نگار، گوجراںوالہ میں پیدایش، حالیہ قیام راول پنڈی۔ شہرت کی چکا چوند سے دُور، خُود نمائی سے گریزاں، خُود پرستی سے مجتنب تخلیق کار کی شہرت کا اولین سبب اُن کے افسانوں کا مجموعہ ’’شمشان گھاٹ‘‘، بعدازاں ناول ’’مشک پوری کی ملکہ‘‘، سیّد رفیق حسین سے موازنہ، ناول ’’گرد باد‘‘ بھی تخلیقی سفر کا اہم سنگ ِمیل، فن پاروں کےتراجم ہندی میں، افسانوں کی صوتی عکّاسی۔ جزئیات نگاری، روایت سے بغاوت کا جذبہ، آگہی، تلاشِ حقیقت، انسان دوستی اہم تخلیقی عناصر۔
’’خواب راستے پرتھمے قدم‘‘ ایک گھر کی کہانی، متوسّط طبقے کے پاکستانی گھرانے کی، اُس گھرانےکوکئی مسائل نے آ لیا تھا، گھر کا سربراہ تلخ حقائق سے فرار ہو کر خواب وخیال میں پناہ لینے کا عادی ہو چُکا تھا، یہاں تک کہ اُس کے سامنے ایک ایسا مسئلہ آن کھڑا ہوا، جسے حل کرنا ضروری تھا۔
ایک طرف چمکیلے سبز مٹروں کا ڈھیر تھا اور دوسری طرف اُن چھلکوں کا ڈھیر، جن میں سے دانے نکالے جا چُکے تھے اور وہ اُن کے بیچ جنگ زدہ سی بکھری بکھرائی، گُھٹنوں پر پرات ٹکائے ایک منتشر عزم کے ساتھ دیر سے مٹر چھیلے جارہی تھی۔ اِس بارجو اُس نے ناخن گاڑ کر مٹر کی پھلی کھولی، تو دیکھا کہ تین رسیلے دانوں بیچ ایک ہرے رنگ کا کیڑا نیم دائرے میں سمٹا اُونگھ رہا تھا۔ وہ کچھ دیر محویت سے کیڑے کو دیکھتی رہی اور پھر دروازہ کُھلنے کی آواز پرایک جھرجھری کے ساتھ مٹردُور اچھال دیا۔
گھر کا مرد جب آیا، تو وہ خشک پتّوں کے طوفان کی لپیٹ میں تھا۔ وہ گھر میں داخل ہوا تو طوفان نے پیٹھ موڑی اور پوری گلی کو شور اور پتوں سے بھرتے ہوئے کہیں اور نکل گیا۔ جب تک وہ صحن میں داخل ہو کر دروازہ بند کرتا، بہت سے آوارہ پتّے کُھلے دروازے کی راہ صحن میں بکھر چُکے تھے۔ عورت کے ہاتھ میں اَن چھلا مٹر دبا رہ گیا کہ اب اُس کی نگاہیں مرد پر جمی تھیں۔
وہ اُس کے ڈھلکے ہوئے کندھوں اور ویران آنکھوں میں کوئی خبر تلاش کر رہی تھی، کوئی ایسی بات، جس کے بعد سب کچھ ہمیشہ کے لیے بدل جاتا۔ وہ وقت کی مار کھایا ہوا منحنی سا وجود، دروازے پر کنڈی چڑھانے کے بعد پلٹا اور بےڈھنگا سا چلتا ہوا صحن کے بیچ رُک گیا، جیسے طے کررہا ہو کہ صحن میں بہتی ہوئی اذیت سے بچ بچا کر کیسے گزرا جائے۔
اس نے یونہی آسمان کی جانب نظریں گھمائیں اور دُور بلندیوں میں چکراتی ایک چیل کو دیکھ کر قطعی بے موقع ہنسی ہنسا۔ یہ اصل میں نظریں جمائے دیکھتی عورت کا سامنا کرنے کی مشکل کو ٹالنے کے لیے کچھ نہ سُوجھنے کی جھنجھلاہٹ سے جنم لیتی بے وقوفی تھی۔ قریب پہنچ کر اُس نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا اور پھر ارادہ ملتوی کر کے کمر پر پتلون کو درست کرتا کچھ کہے بغیر صحن کے ایک جانب بنے غسل خانے میں گھس گیا۔
عورت کہ اُس آدمی کی بیوی تھی، جانتی تھی کہ وہ اب کا غسل خانے میں گھسا دیر سے لوٹے گا کہ اُس کی دائمی قبض اِن دنوں پھر عود کر آئی تھی۔ سو، اُس نے ماتھے پر جھولتی بےجان بالوں کی لٹ کو کان کے پیچھے اُڑسا اور مٹر چھیلنے میں مصروف ہوگئی۔ وہ صبح سے، بلکہ پچھلے کئی دنوں سے بے طرح مصروف تھی، مصروفیت بھی کیا تھی، اپنے جسم کی گہرائیوں سے اُٹھتی ہُوک کو دبانے کا ایک بہانہ تھا۔ دو کمروں کا یہ معمولی سا گھر، جس میں دو جی رہتے تھے، خُود کو مار دینے والی مصروفیت میں پناہ لینےکے لیے بہت چھوٹا تھا۔
کام تھا ہی کتنا، لیکن اُس نے اپنی ناتوانی کے باوصف کیا کچھ نہیں کیا تھا اِن دنوں۔ کبھی بیڈ کو سرکا کرایک جانب لگایا تو کبھی دوسری جانب گھسیٹ دیا۔ لکڑی کی پرانی الماری کہ اُس کی ماں کے جہیز میں سے بچ رہنے والی واحد چیز اور اس کی یادوں سے لبالب تھی، ہمیش طے شدہ جگہ پر کھڑی رہتی تھی، اُس پر نگاہ پڑی تو بےکار میں اُس کی جگہ بدلنے کو کبھی یہاں اور کبھی وہاں گھسیٹتی پھری تھی۔
یہی ماجرا گھر کی دوسری چیزوں کے ساتھ بھی تھا۔ فضول کی اِس اُکھاڑ پچھاڑ میں ہر چیز کو اپنا مدّتوں پرانا ٹھکانا بار بار بدلنا پڑا تھا۔ اُس کے ساتھ ہی جھاڑ پونچھ کا عمل تھا، جو شروع ہوا تو بس ایک اذیت ناک پرفیکشن کے ساتھ چلتا ہی رہا تھا۔ وہ جھاڑو چھوڑتی تو جھاڑن پکڑ لیتی، جھاڑن ہاتھ سے رکھتی تو نامعلوم جالے اتارنے کے لیے ڈنڈے پر کپڑا باندھنے لگتی۔ یہ ایک طرح سےاُس کا خُودساختہ ڈیفینس میکینزم تھا کہ جب بھی وقت اُس پر دانت نکوسنے لگتا، وہ خُود پرمصروفیت اوڑھ کر اپنے تئیں محفوظ ہوجاتی تھی۔ یہ الگ بات کہ پھراگلےکئی روز اُسے بستر پر پڑے کراہنا پڑتا تھا۔
آج صبح اپنے شوہر کے پیشی پرکچہری جانے تک اُس نے مارے تھکان کے خُود کو اگلے کئی دِنوں تک بستر پربے سدھ پڑا رہنے جوگا کرلیا تھا۔ وہ دونوں جانتے تھے کہ کچہری میں اُن کےساتھ کیا ہونے والا تھا۔ سو، شوہر کو رخصت کرنے کے بعد سے وہ ہونی کے احساس کو جھٹکنے کے لیے نئے عزم کے ساتھ کام میں جُت گئی۔ اُدھر وال کلاک کی سوئیوں کو ایسی موت پڑی تھی کہ کم بخت رینگنا بھول گئی تھیں۔
وقت کے بوجھل ٹھیراؤ سےخُود کو لاتعلق رکھنے کو کبھی یہ کام، تو کبھی وہ کام اورآخر میں مٹروں کا ڈھیر چھیلنے کی بےکار مشقّت، جو پکائے جاتے، تو ان دونوں جیوں کو اگلے کئی روزکے لیے کافی ہوتے۔ یہ ریاضت یک سر فضول تھی کہ اِن مٹروں نے چھیلے جانے کے بعد پڑے پڑے خشک ہوجانا تھا، کیوں کہ وہ دونوں مٹر نہیں کھاتے تھے۔
اُس کی اس جان توڑ مشقّت کا مقصد خُود کو بُھلانے کے سوا اورکیا تھا، لیکن بُھولنا بُھلانا کیسا کہ تمام تر ضبط کے باوجود دونوں کمروں میں، باورچی خانے میں، غسل خانے میں اورچار چھے قدم چوڑے صحن کے کونوں کُھدروں میں اس کی گھٹی ہوئی چیخوں کے چیتھڑے بےخیالی میں پڑے رہ گئے تھے، جنھیں اُس کے شوہر نے اپنی قبض کے ساتھ لڑائی میں ہارنے کے بعد دریافت کرنا تھا۔
مرد بہت دیر بعد باہر نکلا، تو اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے تھے اورغسل خانے میں گزری لاحاصل تکلیف سے چہرہ سُرخ تھا۔ وہ گیلے ہاتھوں کو ہوا میں جھٹکتا ہوا سیدھا اُس کے پاس آبیٹھا۔ وہ اس مشکل میں تھا کہ کیا کہے اور کیسے کہے؟حالاں کہ وہ جانتا تھا کہ اُس کی بیوی بتائے بنا بھی جان چکی ہے اور شاید چاہتی بھی نہیں کہ اُسے کچھ بتایا جائے لیکن کچھ تو کہنا تھا کہ خُود اس کے اندر آنسوؤں کا منجمد چشمہ رواں ہوسکے۔ ’’اتنے ڈھیر سارے مٹر…؟‘‘
اُس نے ہلکا سا کھانس کر یونہی بات شروع کرنے کے لیے کہا۔ ’’کون کھائے گا؟‘‘ عورت نے اُس کی جانب دیکھنے سے گریز کیا اور چُپ چاپ مٹروں سے دانے نکالتی رہی۔ مرد نے ایک کُھلا ہوا چھلکا اُٹھایا اور اُسے دو انگلیوں پر احتیاط سے جما کر پٹاخا سا بجایا۔ ’’بچپن میں جب ہمارے گھر میں مٹر آتے تو ہم اِسی طرح ماں کے پاس آبیٹھا کرتے تھے۔‘‘ اُس نے اپنے لہجے کو بشاش سا بناتے ہوئے کہا۔ ’’اماں مٹر چھیلتی جاتی تھی اور ہم ایسے ہی پٹاخے بجایا کرتے تھے، بہت مزہ آتا تھا۔‘‘
’’قبض کو آرام آیا؟‘‘ عورت نے، کہ شاید کچھ اور پوچھنا چاہتی تھی، سرسری سے لہجے میں پوچھا۔ ’’تمھارا اسپغول کا چھلکا تو کسی کام نہیں آیا، دوانے بھی اثر نہیں دکھایا، کچھ اور کرنا پڑے گا۔‘‘ ’’تن خواہ مل تو کسی اچھے ڈاکٹر سے مشورہ کر لیں۔‘‘ ’’بہت دن پڑے ہیں اِس میں تو۔‘‘عورت نے ایک پُرخیال ’’ہوں‘‘ کے ساتھ موضوع موقوف کیا اور اَن چھلے مٹروں کی ایک ڈھیری اپنی جانب کھسکالی، جس کے بعد پھر ایک لمبی اور کندھوں پر بوجھ ڈالتی خاموشی۔
’’جو بات یہ پوچھناچاہتی ہے، کیوں نہیں پوچھ لیتی؟‘‘ اُس نے خاموشی کے اِس وقفے میں جھنجھلا کر سوچا۔ کچھ اور نہ سوجھا تو دوبارہ اپنے بچپن میں پناہ لینے کا سوچا۔ ’’بچپن بھی کیا چیز ہے، کوئی مسئلہ نہ پریشانی، ہم کہا کرتے تھے، فکر نہ فاقہ، نائیاں گھر ہویا کاکا۔‘‘
بچپن کی ایک فضول بات دہرانے سے اُسے ہنسنے کا جواز ملا، تو وہ کچھ دیر حلق سے بے معنی آوازیں نکالتا رہا۔ عورت نے ایک لحظہ سر اُٹھا کراُس کی بےموقع ہنسی پر اُسے ترحم سے دیکھا اور کچھ کہے بغیر اپنے کارِ بےکار میں جُتی رہی۔ ’’تم بھی تو بچپن میں…‘‘ ’’مجھ پربچپن نہیں آیا۔‘‘ عورت نے الٹے ہاتھ سے ماتھا پونچھتے ہوئے روکھا ساجواب دیا اور گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر ایک کراہ کے ساتھ اُٹھی اور پرات لے کر باورچی خانے میں چلی گئی۔
وہ یونہی اپنے بوجھ میں دبا، بےخیالا سا اَن چھلے مٹروں اور چھلکوں کے پاس بیٹھا رہا، اس دوران باورچی خانے سے برتنوں کے ٹکرانے کی آوازیں آتی رہیں اور اُسے پتا بھی نہ چلا کہ کب دیوار سے دھوپ رخصت ہوئی اورکب رات ہوگئی۔ وہ اپنی سوچوں میں الجھا ہوا آج دن کچہری میں ہونے والی واردات سے گزرتا، جانے کہاں کہاں لُٹا پِٹا پِھرتا رہا کہ اُس کی بیوی کی نرم اور بے تاثر آواز اسے واپس کھینچ لائی۔ ’’کھانا کھالیں!‘‘ وہ دونوں اپنے پرانے بیڈ پر دسترخوان بچھا کر کھانا کھانے کے عادی تھے۔
شوہر نے سونے والے کمرے میں بیڈ کی پٹّی پر احتیاط سے خُود کو ٹِکانے کے بعد ڈونگے اُٹھا کردیکھا تو اس کی بھوک بالکل ہی مرگئی۔ ’’یہ کیا…؟‘‘ ’’سارا دن مصروف رہی تھی، کچھ ڈھنگ کا پکا نہیں سکی۔‘‘ عورت نے معذرت خواہانہ لہجے میں آج کا پہلا مکمل فقرہ ادا کیا۔’’نہیں ٹھیک تو ہے۔‘‘ مرد نے اُس کا دل رکھنے کو کہا۔ ’’ویسے بھی قبض میں بھوک کہاں لگتی ہے؟‘‘
’’صُبح سے بھوکے ہیں، دوچار نوالے تو لے لیں۔‘‘بغیر کچھ کھائے یونہی اُٹھ جانا اور اُسے اکیلا چھوڑ دینا سخت بے وقوفی کی بات ہوتی۔ چلو دوچارنوالے ہی سہی اور پھر کھانے میں شریک ہونے سے اُسے بیوی کے سامنے کچھ دیر بیٹھے رہنے کا موقع بھی ملے گا، جو ان حالات میں ازبس ضروری تھا کہ وہ خُود تو خیر تھا ہی، گھر کا ماحول بھی قبضایا ہوا تھا۔
یہ والی قبض بھی اُسے ہی توڑنا تھی، ورنہ وہ دونوں ٹوٹ جاتے۔ سو، اُس نے لقمہ توڑا اور روٹی کے ٹکڑے کو دو انگلیوں کے بیچ دبائے اپنے پورے وجود کے ساتھ بہ ظاہر کھانے میں مصروف اپنی بیوی کو دیکھنے لگا، جو تھکن سے چُور تھی اور جس کے پچکے ہوئے گالوں میں بخار کی لالی جھلک رہی تھی۔
وہ عورت زبان سے کچھ کہے نہ کہے، اس کے اندر چلتی چکّی کی مشقت اس کے چہرے پر اُبھر آئی تھی۔ اُسی کی طرح ایک کم زور وجود اور خون بڑھا دینے والی خوش کن خبروں سے مستقل محرومی کے باعث قدرے سُتا ہوا اور بے رونق چہرہ۔ لیکن پچھلے چند روز سے جو چل رہا تھا، اُس باعث اُس کا چہرہ زندگی کے رہے سہے آثار سے بھی محروم ہوگیا تھا۔
وہ دیکھ رہا تھا کہ پچھلے چند روز کے یاس کی شدّت سے اس کے گالوں کی ہڈیاں کچھ اور اُبھرآئی تھیں اور ناک کا بانسا کچھ اورتیکھا ہوگیا تھا۔ اب اُس کی عُمر ایسی بھی نہ تھی، اُس سے دس بارہ سال چھوٹی تھی وہ۔ اِس حساب سے عمر کی پانچویں دہائی میں داخل ہونے میں اُسے ابھی تین چار سال پڑے تھے، لیکن اِس وقت یوں دکھ رہا تھا، جیسے وہ اُس سے بڑی ہو۔ اُس کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا تھا کہ جب بھی معمول سے بڑھ کر کوئی صدمہ ملتا، تو اس پر بڑھاپے کی تہ بچھ جاتی تھی۔
اپنی برسوں طویل ازدواجی زندگی میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشی بھر فاصلے پر رہے تھے۔ ان کے اندر چلتی سرگوشیاں اُنھیں اندر ہی اندر کاٹتی رہیں، لیکن وہ ایک دوسرے کے بھیتر سے بےخبر اپنی اپنی بے معنویت میں جیتے رہے۔ ان کے درمیان فاصلہ سمجھ میں آنے والا تھا کہ دونوں نے دو مختلف سیاروں میں جنم لیا تھا۔
عورت نے جس سیارے میں جنم لیا تھا، وہاں عورت پن کی نفی ہی بنیادی قدر تھی، جو عورت کی نجات کے لیے ازبس ضروری تھی۔ یوں ایک گُھٹے ہوئے ماحول میں پروان چڑھنے کےباعث عورت کے لیے وہ ہمیشہ سے ایک دوسرا آدمی رہا تھا، جو اوپر سے صادر کیے گئے ایک فیصلے کے نتیجے میں اُس کی زندگی میں چلا آیا تھا، مگر اپنے ہارے اور جھنجلائے ہوئے والہانہ پن کے باوجود اُس کی عادت نہ بن پایا تھا۔
ایک اُن کی بیٹی تھی، جس نےاُن کے درمیان فاصلے کو اپنے وجود سے بھر رکھا تھا۔ اگر یہ گھر، گھر جیسا دِکھتا تھا، تو صرف اُسی کے دَم سے۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنی اپنی مجبوریوں کے باعث جینے کے ڈھنگ سے دونوں ہی زیادہ آشنا نہیں تھے۔ دونوں جھینپے جھینپے اور کترائے کترائے رہنے کا مزاج رکھتے تھے۔ پار سال بیٹی کی شادی ہوئی، تو گھر میں پھر سے سُونا پن لوٹ آیا۔
بیٹی ہونے کے بعد سے جیسے اُس پر سے کوئی بوجھ اُتر گیا ہو۔ تب سے وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آگئے تھے۔ ان کے ایک دوسرے سے جھینپتے اور کتراتے ہوئے جینے کی ذمّےدار، اُن کی محرومیاں بھی تھیں، جو نوع بہ نوع تھیں۔ اُن میں وہ بھی تھیں، جو معاش سےجڑی ہوئی تھیں۔
عورت نے چوتھائی صدی پہلے اُس سے رشتہ جوڑ تو لیا، لیکن جلد ہی اُسے معلوم ہوگیا کہ ایک معمولی اکاؤنٹینٹ جس کی ترقی کے امکانات بھی یونہی سے ہوں اور جو رشوت میں سگریٹ کی ڈبیا تک وصول کرنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو، اُس کا نتیجہ تنگی ترشی سے گزر بسر کرنے کے اور بات بات پر خون کے گھونٹ بھرنے کے سوا اور کیا نکلتا۔
یہی سہی، لیکن کم ازکم کوئی اپنا ٹھکانہ، کوئی مستقل پتا تو ہو۔ اتنے بہت سارے سال گزرنے کے باوجود اب بھی کسی شادی یا مرگ میں اُسے اپنے خوش حال رشتے داروں کے اُن پوچھے سوالوں کا سامنا تو نہ کرنا پڑے۔ (جاری ہے)