• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے دنوں ایک تصویر نے خاصا شور برپا کیا : ایک طرف طالبان کے امیر خان متقی، اور دوسری جانب بھارت کے جے شنکر۔ طالبان اور مودی سرکار کے نمائندوں کو ایک فریم میں دیکھ کر اس سچائی پر ایمان مزید پختہ ہو گیا کہ انتہا پسندی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ـبظاہر دو ملکوں کے درمیان سفارتی روابط کوئی انہونی بات نہیں، خواہ نظریاتی یا سیاسی اختلاف ہی کیوں نہ ہو۔ مگر اس ملاقات کا وقت اور پس منظر نہایت معنی خیز ہے۔ ایسےوقت میں جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات پچھلی سرحدی جھڑپوں کے بعد نہایت تلخ ہو چکے ہیں، افغانستان کی طالبان حکومت اور مودی سرکار کا ’’شیر و شکر‘‘ہونا کوئی نیک شگون نہیں ـ۔یہ وہی بھارت ہے جو ہر عالمی فورم پر طالبان کے خلاف بیانات دیتا اور پاکستان کو طالبان کی حمایت کرنے پر دہشت گرد ملک کہتا رہا ہے ـ ۔ کیا اب طالبان ویسے شدت پسند یا قدامت پرست نہیں رہے؟ طالبان اور مودی سرکار کا یکجا ہونا دو انتہا پسندوں کا ملاپ ہے ـ ،مفادات کے آگے نظریات محض دکھاوے ہیں۔ گو کہ بھارت پہلے ایک سیکولر ملک کے طور پر جانا جاتا رہا ہے لیکن یہ کہنا کہ وہاں راوی چین ہی چین لکھتا ہے،سراسر غلط ہے، جس طرح طالبان نے انتہاپسندی، فرقہ واریت اور عورت دشمن سوچ کو پروان چڑھایا، اسی طرح بھارت میں بی جے پی کے گزشتہ دس برسوں کے دورِ اقتدار نے بھی اقلیتوں کی زندگی اجیرن بنا دی ۔ مذہب کے نام پر نفرت، تعصب اور تشدد کو اسقدرہوا دی گئی کہ وہاں بسنے والی غیر ہندو برادریاں ہی نہیں نچلی ذات کے ہندو بھی خوف اور عدم تحفظ کے سائے میں جینے پر مجبور ہیں۔بھارت میں انتہاپسندی کی جڑیں تلاشنےکیلئے ہمیں 1920 میں جھانکنا پڑے گا جب خلافت تحریک میں ہندو مسلم اتحاد کے نعرے لگ رہے تھے ـ ڈاکٹر کیشو بلبھ رام ہیڈگے وار، اس نظریے کے مخالف تھے کہ ہندوستان سب مذاہب کا ملک ہے۔ انکے خیال میں بھارت کی اصل شناخت ہندو تہذیب سے ہے، اس لیے انہوں نےآر ایس ایس نامی تنظیم 1925ءمیں بنائی۔آر ایس ایس کی 1951میں سیاسی شاخ بھارتیا جن سنگھ وجود میں آئی لیکن کئی دہائیوں تک ان انتہا پسند گروہوں اور جماعتوں کو عوام سے پذیرائی نہ ملی 1980 ءمیں بھارتیا جن سنگھ، ’’بھارتیہ جنتا پارٹی ‘‘(BJP)بن گئی جو پچھلے گیارہ سال سے بھارت کی حکمران جماعت ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی جسے اب مودی سرکار کے نام سے جانا جاتا ہے ایک انتہاپسند جماعت ہے جس نے پینتالیس برسوں میں بھارت کو فرقہ واریت اور مذہبی انتہا پسندی کی انتہاؤں تک پہنچا دیا ہے۔ ـ ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ طالبان کی حمایت پاکستان کی ایک ایسی سنگین غلطی تھی جسکا خمیازہ پوری قوم نے بھگتا ـ گزشتہ چالیس برس میں لاکھوں افغانوں کو پناہ دینا، ان کیلئےسرحدیں کھول دینا، اور انکے معاشی و سماجی انضمام کو ممکن بنانا ـ یہ سب انسانی ہمدردی کے زمرے میں تو آتا ہے، مگر اسکے سیاسی نتائج ہمیشہ الٹ ہی ثابت ہوئے۔افغان شہری پاکستان کے ہر شہر میں بس گئے، کاروبارکیے، جائیدادیں بنائیں، مگر جب وقت آیا تو یہی سرزمین ان کیلئے مشکوک ٹھہری اور وہی پاکستان ان کے نشانے پر آ گیا۔اب لگتا ہے کہ ریاستی اداروں کو یہ احساس ہو چکا ہے کہ اکیسویں صدی میں مذہبی انتہا پسندی پر مبنی کسی بھی حکومت کی حمایت خودکشی کے مترادف ہے۔

اگست 2021 میں طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو پاکستان میں کچھ حلقوں نے اسے’’اسلامی فتح‘‘قرار دیکرجشن منائے ، مگر بہت جلدانکی حقیقت سامنے آ گئی۔ وہی طالبان جو کبھی پاکستان کے کندھے پر سوار تھے، اب آنکھیں دکھانے لگے۔اقوامِ متحدہ کی یو این وومن رپورٹ کے مطابق طالبان کے دورِ حکومت میں افغانستان میں تقریباً 80 فیصد لڑکیاں ثانوی اور اعلیٰ تعلیم سے محروم ہیں۔وہ خواتین جو پہلے سرکاری دفاتر، غیر سرکاری تنظیموں یا بیوٹی سیلونز میں کام کر کے اپنے خاندان کا سہارا بنتی تھیں، اب ان سب دروازوں پر طالبان نے تالا ڈال دیا ہے، ـ طالبان کے دور میں کم عمری کی شادیاں معمو ل بن گئی ہیں۔ نتیجہ یہ کہ افغانستان آج ان ممالک میں سرِفہرست ہے جہاں زچگی کے دوران خواتین کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر دو گھنٹے میں ایک افغان عورت حمل کے دوران یا بچے کی پیدائش کے وقت جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے۔ اسکی وجوہات میں بچیوں کی کم عمری، وٹامن کی شدید کمی اور طبی سہولیات کا فقدان شامل ہیں۔ جب ہم دہلی میں طالبان اور مودی سرکار کے وزرائے خارجہ کو مسکراتے دیکھتے ہیں، تو یہ احساس اور گہرا ہو جاتا ہے کہ انتہا پسندی چاہے مذہب کے لبادے میں ہو یا قوم پرستی کے، اس کا چہرہ ایک ہی ہوتا ہے ـ جبر، طاقت اور عورت دشمنی۔یہ تصویر محض ایک سفارتی لمحہ نہیں، بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انتہا پسند ریاستیں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں ۔ اگر آج ہم نے یہ نہ سمجھا کہ انتہا پسندی، فرقہ واریت اور ظلم کا کوئی مذہب، کوئی سرحد نہیں ہوتی، تو اگلا زخم شاید کسی اورکو نہیں، بلکہ ہمیں خود لگے گا۔

تازہ ترین