کراچی کی تاریخ کے اوراق پلٹیں تو ہمیں صرف سیاسی کشمکش نہیں ملتی بلکہ وہ روشنی بھی نظر آتی ہے جو اس شہر کی رگوں میں دوڑتی تھی۔ کبھی یہ شہر ایسا جگمگاتا تھا کہ شام ڈھلے صدر اور طارق روڈ کی روشنیوں میں دن اور رات کا فرق مٹ جاتا تھا۔بولٹن مارکیٹ میں شور تھا مگر یہ شور زندگی کی علامت تھا۔ پرانی ٹرام کی آواز گلیوں میں یوں گونجتی تھی جیسے شہر کی نبض دھڑک رہی ہو۔ کینجھر جھیل کے کنارے بیٹھ کر لوگ اپنی تھکن اتارتے اور کل کے خواب بنتے۔ کلفٹن کا ساحل اس شہر کی آنکھوں میں بسی امید کا عکس تھا۔کراچی کی شامیں جب ریڈیو پاکستان کی لہروں پر نعت، غزل اور ڈرامہ بکھرتا تھا... جب فیض احمد فیض اپنی جلاوطنی سے لوٹ کر اسی شہر میں مشاعروں کو جگمگاتے تھے... جب جوش ملیح آبادی اپنی خطیبانہ شاعری کے ساتھ کراچی کے افق پر گونجتے تھے... جب ابن انشا اپنی طنز و مزاح میں کراچی کے موسم اور لوگوں کو امر کر رہے تھے... جب جمیل الدین عالی صدر کے کسی کیفے میں بیٹھ کر قومیت کے خواب لکھ رہے تھے اور پروین شاکر یونیورسٹی کی ڈیوٹی سے نکل کر شام ڈھلے شعروں کے پھول پروتی تھیں۔کراچی کی گلیوں میں جہاں کبھی ریڑھی والا پاپڑ بیچ رہا ہوتا تھا، وہیں کسی چائے کے ہوٹل پر فلاسفر بیٹھا اپنی قوم کے مستقبل پر بحث کر رہا ہوتا تھا۔ یہی شہر تھا جو تجارت کا مرکز تھا، مگر علم و ادب کا دل بھی تھا۔کراچی کبھی ایسا شہر تھا جسکے چراغوں کی روشنی صرف ساحل تک محدود نہ رہتی تھی سمندر کی لہروں سے ٹکرا کر دور دنیا کے کناروں تک جا پہنچتی ۔ یہ وہی شہر ہے جسے روشنیوں کا شہر کہا گیا اور یہ ایک استعارہ نہ تھا بلکہ حقیقت تھی۔ یہاں کی راتیں دن کی طرح جگمگاتی تھیں اور دن میں زندگی کا احساس ایک جشن کی مانند برپا رہتا تھا۔ کبھی یہ شہر ایسا پررونق تھا کہ گورے بھی حیرت سے انگلیاں منہ میں دباکر کہتے کہ کاش ہمارے شہر بھی کراچی جیسے ہوتے۔یہی شہر جب عبدالستار افغانی کے ہاتھوں آباد ہوا تو اس کی گلیاں، اس کے چوراہے، اس کے باغات اور اس کی بستیوں نے ایک نئے روپ میں سانس لی۔ افغانی صاحب کراچی کے مئیر تھے لیکن ان کا خواب ایک انتظامی منصب سے کہیں بڑا تھا۔ وہ کراچی کو عمارتوں اور سڑکوں کا شہر نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایک ایسی تہذیب سمجھتے تھے جو اپنے باسیوں کیلئے سایہ بھی تھی امن ٫سکون اور رزق بھی۔ وہی کراچی جہاں سمندر کی ٹھنڈی ہوائیں ماں کے جھولے جیسی راحت بخش تھیں، جہاں کینجھر اور منچھرجھیل کی تازگی شہر کی رگوں میں خون کی طرح دوڑتی تھی، جہاں بندر روڈ کے چراغ دلوں کو امید دیتے تھے اور بولٹن مارکیٹ کی رونقیں خرید و فروخت تک محدود نہ تھیں بلکہ ایک جیتے جاگتے تمدن کی علامت تھیں۔
کراچی اس وقت غریب کی ماں کہلاتا تھا۔ یہاں مزدور کیلئے بھی روٹی اور خواب یکساں تھے اور تاجر کیلئے بھی اعتماد اور سکون۔ صفائی کا نظام ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جا سکتا تھا، پانی کی روانی شہر کی رگوں کو شفاف رکھتی تھی اور سیوریج کے نظام نے اسے یورپی شہروں کے ہم پلہ کر دیا تھا۔ یہ شہر واقعی ایسا تھا کہ جہاں کی فضا میں اعتماد کی خوشبو رچی بسی تھی۔ یہ شہر انسانوں کیلئے رہائش کی جگہ نہیں تھا بلکہ زندگی کے مکمل منظرنامے کا دوسرا نام تھا۔ تاریخ کا دھارا ہمیشہ سیدھی لکیر نہیں کھینچتا۔ طاقت کے ایوانوں کو شایدیہ منظر اچھا نہ لگا۔ گورنر سندھ جنرل ایس ایم عباسی نے ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کی کوشش کی اور اس بوجھ کے آگے ڈھال بنے عبدالستار افغانی۔ پھر وہ لمحہ بھی آیا جب جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں پر ان کی زبان نے وہی کہا جو ضمیر نے کہا۔ اقتدار کے ایوانوں کویہ صراحت گراں گزری۔ چنانچہ منصوبے بنے، سازشیں ہوئیں اور اس شہر کے باسیوں کو تقسیم کرنے کیلئے ایک نئی سیاست تخلیق کی گئی۔ یوں کراچی کی سڑکوں پر نفرت کے بیج بوئے گئے اور وہ مئیر جو اس شہر کی دھڑکن تھا غیر آئینی طریقے سے معزول کر دیا گیا۔ وہ صرف معزول نہ ہوئے بلکہ جیل کی کوٹھڑیوں میں ڈال دیے گئے۔ میونسپل کارپوریشن کے ڈیڑھ سو ممبران سمیت قید و بند کی صعوبتیں ان کا مقدر بن گئیں۔
کراچی کی تاریخ میں یہ ایک المناک موڑ ہے کہ جب خدمت کرنے والوں کو زنجیروں میں جکڑا گیا اور شہر کو نفرت اور لسانیت کی سیاست کے حوالے کیا گیا۔ وہ کراچی جو کبھی امن کی تصویر تھاوہاں تشدد کا سایہ چھا گیا۔بزرگ کہتے ہیں کہ شہر محض اینٹ اور پتھر سے نہیں بنتے بلکہ کردار اور روشنی سے بنتے ہیں۔ کراچی کے کردار کو اگر کوئی دوبارہ زندہ کر سکتا تھا تو وہ عبدالستار افغانی جیسے لوگ تھے۔ لیکن تاریخ نے ان کے ساتھ ناانصافی کی۔ ان کی محنت کے چراغ گل کر دیے گئے۔ آج بھی جب کراچی کی ٹوٹی سڑکوں پر گاڑی لڑکھڑاتی ہے، جب کچرے کے ڈھیر میں بچے کھیلتے ہیں، جب پانی کی بوند کیلئے شہری احتجاج کرتے ہیں، جب صدر کے فٹ پاتھوں پر زندگی بوجھ ڈھوتی نظر آتی ہے تو یہ سوال ابھرتا ہے کہ اگر افغانی جیسے لوگ راستے سے نہ ہٹائے جاتے تو آج یہ شہر کیسا ہوتا؟کراچی اس انتظارمیں ہے کہ کب کوئی پھر سے آئے جو اس کے ماتھے پر لگے زخموں کو مندمل کرے، جو اس کی گلیوں کو پھر سے روشنیوں سے بھر دے، اور جو اس کے ماضی کو اس کے مستقبل سے جوڑ دے۔کیا ہم اس شہر کو واپس وہی کراچی بنا سکیں گے جو کبھی دنیا کے لیے مثال تھا؟