اگر کامیاب افراد کی زندگی کا مطالعہ کریں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے وہ سب خیر تقسیم کرنے والے، لوگوں کی بھلائیاں چاہنے والے، درگزر کرنے والے، معاف کرنے والے اور صبر و تحمل سے کام لینے والے تھے۔ اس کے دو پہلو ہیں۔ پہلا مذہبی پہلوہے۔ دوسرا معاشرتی پہلوہے۔ دونوں پہلوؤں سے ہی اس کی بڑی اہمیت ہے۔اگر ہم مذہبی اعتبار سے دیکھیں تو ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اچھائیاں پھیلائیں اور برائیوں سے منع کریں۔ قرآن میںہے’تم نیکی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو ‘۔ آپ ﷺنے بھی ہمیں تعلیم دی ہے کہ لوگوں کے بارے میں اچھا سوچیں۔ آسانیاں پیدا کریں۔ مشکلات پیدا نہ کریں۔ لوگوں کو خوشخبریاں دیں اور نفرت والے کاموں سے دور رہیں۔یاد کریں جب آپ ﷺنے حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو یمن کا گورنر اور قاضی بناکر بھیجا تو آپ ﷺنے ان کو کیا نصیحتیں کی تھیں؟بخاری شریف کی روایت ہے کہ ان دونوں کو رخصت کرتے وقت آپ ﷺنے انہیں فرمایا: ”لوگوں کو خوشخبریاں سنانا اور نفرتیں نہ دلانا۔ لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا اور ان کے لیے مشکلات پیدا نہ کرنا۔“ گویا ہمیں مذہبی اعتبار سے حکم ملتا ہے کہ لوگوں کے لیے آسانیاں اور سہولتیں پیدا کریں۔ ایسے کام نہ کریں جن سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے، چنانچہ ہمیں محبتیں بانٹنی چاہییں۔ نفرتوں کے سوداگر نہیں بننا چاہیے۔ کمزوروں کو سہارا دیں۔ غریبوں کے لیے مخلص بنیں۔ مایوسی کے اندھیرے سے انہیں باہر نکالیں۔ امیدوں کے چراغ جلائیں۔اگر ہم معاشرتی پہلو سے دیکھیں تو ہرمعاشرے میںاس شخص کو پسند کیا جاتا ہے جو لوگو ںکی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتا ہے۔ جو غریبوں کی مدد کرتا ہے۔ جو معاشرے کو بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جو مایوس لوگوں کو امیدیں دلاتا ہے۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ہر دوسرا شخص نفرتوں کا سوداگر بن چکا ہے۔ اشتعال انگیزی ہے۔ غصہ ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں ہیں۔ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی جارہی ہیں۔ کوئی کسی دوسرے کو خوشحال دیکھ کر راضی نہیں۔ آپ عالمی سطح سے لے کر ملکی سطح تک اور پھر اداروں سے لے کر افراد تک باریک بینی سے جائزہ لے کر دیکھ لیں کہ کیا ہورہا ہے؟خدا کے لیے ایک دوسرے کو برداشت کرنا سیکھیں۔ ایک دوسرے کو معاف کرنا سیکھیں۔ یاد رکھیں! انتقام سے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں۔ انتقام در انتقام سے ملک و قوم ترقی نہیں کرسکتے۔ ہمیں ایک دوسرے کو اسی طرح معاف کرنا چاہیے جس طرح رحمتِ دو عالم ﷺنے معاف کیا تھا۔آپ فتح مکہ کا واقعہ تو دیکھیںکس طرح رواداری، بھائی چارگی اور امن وسلامتی کا پیغام دیا گیا ہے۔ رہبر اعظم ﷺنے ان لوگوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے جو ساری زندگی آپ کے راستے میں کانٹے بچھاتے اور سنگ باری کرتے رہے۔
دنیا نے ایسا فاتح نہیں دیکھا ہوگا جس نے اپنے دشمنوں کے لیے ایسی فراخدلی کا ثبوت دیا ہو۔ آپ نے فرمایا: ”جو شخص ہتھیار پھینک دے، جو شخص توبہ کرلے، معافی مانگ لے، گھر کاکواڑ بند کرلے سب کو امان ہے۔“فتح مکہ کے موقع پر آپ ﷺنے اعلان کیا تھا: آج سب کو معاف کردیا گیا ہے۔ اپنی جان کے پیاسوں تک کو معاف کردیا۔ ہندہ، جس نے آپ ﷺکے چچا حضرت امیر حمزہ ؓکا کلیجہ چبایا تھا، آپ نے اس کو بھی معاف کردیا۔ وحشی، جو پیارے رسول کے چچا امیر حمزہ کا قاتل تھا، جب مسجد میں داخل ہوا تو صحابہ کرامؓ نے اسے قتل کرنے کیلئے تلوار سونت لی۔ آپ نے فرمایا: ”چھوڑدو!“آپ نے ان کو معاف کرنے کے بعد صرف اتنا کہا: میرے سامنے نہ آیا کرے کیونکہ مجھے میرے چچا یاد آجاتے ہیں۔یہ اسلام ہی تو ہے جس نے غیروں کی بھی حفاظت کا نہ صرف حکم دیا بلکہ عمل کرکے بھی دکھایا۔ فارس جب فتح ہوا تو بادشاہ نوشیروان کی بیٹی بھی مالِ غنیمت کے ساتھ گرفتار کرکے لائی گئی۔ اسے جب دربارِ نبوی میں پیش کیا گیا تو ان کے سر پر ڈوپٹہ نہیں تھا۔ آپ نے حکم دیا: ”ان کے سر پر ڈوپٹہ رکھا جائے۔ “عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! یہ تو مسلمان نہیں ہے۔ آپ نےفرمایا: ”بیٹی تو بیٹی ہوتی ہے خواہ کسی کی بھی ہو۔“ انسان تو انسان حیوانوں کے ساتھ بھی اسلام نے اعلیٰ برتاؤ کیا۔ وہ واقعہ تو سب کو یاد ہوگا ایک اونٹ نے آپ ﷺکے قدموں میں سر رکھ کر اپنے مالک کی شکایت کی۔ آپ ﷺنے فرمایا: ”اس کا مالک اس سے کام زیادہ لیتا ہے اور اسے گھاس کم دیتا ہے۔“ اس کے بعد آپ نے جانوروں کے حقوق بھی بیان فرمائے۔ دوسروں کو معاف کرنا بڑے دل گردےکا کام ہوتا ہے۔ یہ کام وہی کرسکتا ہے جو شخض قوم کے ساتھ مخلص ہو۔ جو خدمت کے جذبے سے سرشار ہو۔ جو خیرخواہ ہو۔ جو ہمدرد ہو۔ معاف کرنے سے ہی قومیں آگے بڑھتی ہیں۔ ترقی کرتی ہیں۔اب میں ماضی قریب کی اور غیرمسلم معاشرے کی بھی ایک مثال دیتا ہوں۔ دیکھیں!
نیلسن منڈیلا نے اپنی قوم کی آزادی کے لیے طویل اور صبرآزما جدوجہد کی۔ 20 سال تک سلاخوں کے پیچھے رہے۔ قید تنہائی کاٹی، لیکن جب اقتدار میں آئے تو سب کو معاف کردیا۔آج ہمارے سیاسی حکمران نیلسن منڈیلا کا نام لیتے ہیں کہ انہوں نے اقتدار میں آکر ان لوگوں کو بھی معاف کردیا تھا جنہوں نے انہیں 20 سال تک قیدِ تنہائی میں رکھا تھا، لیکن ہمارے یہ حکمران نجانے کیوں خود اقتدار میں آکر انتقامی کارروائیاں کرتے ہیں۔ یہ کیوں معاف نہیں کردیتے؟ ۔ایک دوسرے کو معاف کریں۔ ایک دوسرے کی غلطیوں کو درگزر کریں۔ دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کریں۔ ہر شخص اپنے گریبان میں منہ ڈال کر دیکھے کہ اللہ نے کیسے کیسے ان کے عیوب پر پردہ ڈالا ہوا ہے۔ہم مسلمان ہیں۔ دینِ اسلام نے ہمیں پردہ پوشی کا حکم دیا ہے کہ دوسروں کے عیبوں پر پردہ ڈالیں۔ معاف کردینے سے کامیابی ملتی ہے۔ آپ بھی کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آج ہی سے معاف کردینے کی عادت اپنائیں۔ کامیابی آپ کے بھی قدم چومے گی۔