• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی کی صفوں میں سنگین انتشار اور پارٹی کا مستقبل

تحریک انصاف کی صفوں میں انتشار کھل کر سامنے آ گیا- گنڈاپور حکومت کا خاتمہ بھی اسی انتشار کا شاخسانہ ہے- عمران خان کا دہشتگرد تنظیموں کے ذریعے خیبرپختونخوا پر غلبہ حاصل کرنے کا خواب فوج کی جانب سے افغان دہشتگروں کے خلاف مؤثر کریک ڈاؤن کی وجہ سے شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا-اس منصوبے کے تحت عمران خان کے پی کے میں خصوصاً اور پورے ملک میں عموماً طالبان، تحریک انصاف کے شرپسند ٹولے اور مقامی دہشتگردوں کی مدد سے بغاوت اور خانہ جنگی برپا کرنا چاہتے تھے- اپنی اس ناکامی پر عمران خان شدید غصے میں ہیں اور اپنے غیر ملکی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے اپنی پارٹی اور اس محب وطن لیڈروں کو قربان کرنے کے لئے تیار ہیں جس کی بنیاد پر پارٹی کے اندر بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کا امکان ہے-اس حوالے سے افغان طالبان حکومت اور پاکستان کے درمیان ترکیہ میں جاری مذاکرات کے بارے میں عمران خان کا وہی نظریہ اور بیانیہ ہے جو اسرائیل اور بھارت کا ہے- اس ضمن میں عمران خان ان مذاکرات کو ناکام کرنے کے لئے ہر وہ حربہ اپنائیں جس سے وہ پاکستان دشمنی اور بھارت دوستی کا کھل کر مظاہرہ کر سکیں۔کسی بھی سیاسی جماعت، خاص طور پر تحریکِ انصاف (PTI)، پر طالبان حکومت اور دہشت گرد تنظیموں کے حق میں ’’پاکستان مخالف کردار‘‘ ادا کرنے کا الزام ایک انتہائی سنگین اور سیاسی طور پر حساس معاملہ ہے لیکن عمران خان نے خفیہ اور کھلے عام ریاست مخالف اعمال اور بیانیوں کا سلسلہ جاری رکھا جس سے پیدا ہونے والی صورت حال اور قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ اگرچہ ایک تنقیدی جائزے کے لیے ضروری ہے کہ ان دعوئوں اور جوابی دعوئوں، تاریخی پس منظر اور ان حالات میں پارٹی کے ممکنہ مستقبل کا تجزیہ کیا جائے لیکن عمران خان اور ان کی پارٹی کا ماضی ایسے واقعات سے بھرا پڑا ہے جس سے ان کی ریاست دشمن سوچ کا اندازہ اور ریاست کو پہنچنے والے نقصان کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ اگست 2021میں افغان طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالا، تو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے ایسے بیانات دئیے جنہیں ناقدین نے ضرورت سے زیادہ حمایتی اور پرجوش قرار دیا۔ ان کی حکومت نے سرکاری سطح پر عالمی برادری سے اس بحران کو روکنے کے لیے نئی افغان حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر زور دیا۔بالکل اسی طرح مودی کے جیتنے پر خوشی کا اظہار کیا۔اور سب سے زیادہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ غزہ پر اسرائیلی بربریت اور نسل کے دوران عمران خان کی جانب سے مذمت کا جملہ بھی سنائی نہیں دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت کے ذاتی طور پر ٹی ٹی پی یا افغان طالبان کو دہشت گردانہ کارروائی کے طور پر مالی امداد فراہم کرنے کا براہ راست دیا گیا اور دہشتگردی کے سنگین الزامات میں مختلف جیلوںمیں سزائیں بھگتنے اور پاکستان میں دہشتگردی کرکے افغانستان فرار ہونے والے 42ہزار سے زائد دہشتگردوں کو پاکستان میں آباد کیا۔ ، قابلِ تصدیق ثبوت عام عوامی اور میڈیا رپورٹس میں عام طور پر موجود نہیں ہیں۔ عمران خان کی سیاست پر زیادہ تر تنقید ان کی ناکام پالیسیوں، سیاسی فیصلوں اور بیان بازیوں کے گرد گھومتی ہے جس کے بارے میں مخالفین کا کہنا ہے کہ اس نے عسکریت پسندوں کے لیے ایک سازگار ماحول پیدا کیا اور پاکستان کے قومی مفاد اور بین الاقوامی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ مئی 9 کے واقعات کے بعد پارٹی اور اس کی قیادت پر ملک دشمن سرگرمیوں کے الزامات اور اس کے بعد ہونے والے قانونی کریک ڈاؤن نے اسے سیاسی میدان میں عملی طور پر تباہ کر دیا ہے۔ قیادت جیل میں ہے، کلیدی شخصیات منحرف ہو چکی ہیں اور پارٹی کو اپنی سیاسی سرگرمی اور عوامی جگہ پر پابندیوں کا سامنا ہے۔اگرچہ پی ٹی آئی آج بھی anti-establishment بیانیوں کے گرد متحرک ہے، لیکن ریاست دشمن بیانیہ پر پارٹی کو چلایا جا رہا ہے، ریاستی سلامتی کے خطرات کی بنیاد ہے جسے ٹی ٹی پی کی بحالی اور 9مئی کی پرتشدد بغاوت سے جوڑا جاتا ہے اور یہی ان کے خلاف کریک ڈاؤن کا جواز فراہم کرتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ طالبان اور دہشت گرد گروہوں کے حوالے سے پی ٹی آئی کے کردار کا مؤقف واضح ہے جو مجرمانہ حمایت سے زیادہ متنازع پالیسی فیصلوں اور بیان بازی سے جڑا ہوا ہے۔ یہ الزامات وسیع تر سیاسی تنازعات میں شامل ہو گئے ہیں، جس سے پارٹی کو درپیش بڑے سیاسی اور قانونی چیلنج کے لیے ایک طاقتور جواز فراہم ہوا ہے، جو اس کے مستقبل کو انتہائی غیر یقینی بنا رہا ہے اور اس کی بقاء کو ریاست مخالف ہونے کے تاثر سے باہر نکلنے کے لئے قابلِ اعتبار ہونے کا راستہ تلاش کرنے کی کوششوں میں ہے۔

تازہ ترین