• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

10مئی1857ء کومیرٹھ میں قائم انگریز کی سب سے بڑی فوجی چھائونی میں ہندوستانی فوجیوں نے بغاوت کردی ،انگریز نے اس بغاوت کو میوٹنی قراردیا ،بعض مورخین اس بغاوت کو غدر کے نام سے یاد کرتے ہیں مگر یہ دراصل جنگ آزادی تھی اور 1857ء کو شروع ہونے والی یہ جدوجہد 1947ء میںتب بار آور ثابت ہوئی جب انگریزوں کو یہاں سے رُخصت ہونا پڑا۔کیا ہمیشہ کی طرح پنجاب نے اس جنگ میں کوئی مزاحمتی کردار ادا نہیں کیا یا پھر رائے احمد خان کھرل جیسے حریت پسندوں نے وہ قرض اتارے جو واجب بھی نہیں تھے؟کیوں نہ آج ہم یہی تاریخی حقائق جاننے کی کوشش کریں ؟

برطانوی فوج کے ہندوستانی سپاہیوں میں بے چینی اور بددلی تو بہت عرصہ سے پھیل رہی تھی۔مگر نئے کارتوس میں خنزیر اور گائے کی چربی استعمال کرنے کی افواہ پھیلی تو مقامی جوان بغاوت پر آمادہ ہوگئے۔حریت پسند سپاہی منگل پانڈے نے اس جدوجہد آزادی کی داغ بیل ڈالی۔A history of the freedom movement کے والیم تھری پارٹ ون میںبتایا گیا ہے کہ مرشدآباد کے قریب ہی بہرام پور میںمقامی سپاہیوں پر مشتمل انیسویں رجمنٹ انفنٹری تعینات تھی۔ 25فروری کی پریڈ میںسپاہیوں نے کارتوس وصول کرنے سے انکار کردیا۔فیصلہ ہوا کہ پوری یونٹ کو بطور سزا ختم کردیا جائے۔اس سے پہلے کہ انگریز افسر چھائونی میں پہنچ کر یہ فیصلہ سناتے ،29مارچ کو سپاہی منگل پانڈے نے انگریز سرجنٹ میجر کو قتل کردیا۔منگل پانڈے اور اسکی یونٹ کے ایک اور سپاہی کو پھانسی دیدی گئی مگر بغاوت کو نہ کچلا جا سکا۔میرٹھ چھائونی میں تھرڈ کیولری کے کمانڈنگ افسر نے 24اپریل کو پریڈ کا حکم دیا تو 89میں سے85سپاہیوں نے کارتوس استعمال کرنے سے انکار کردیا۔انکوائری کے بعد ان سب سپاہیوں کو سخت سزائیں دینے کا فیصلہ ہوا۔9مئی 1857ء کوان سپاہیوں کو نشان عبرت بنانےکیلئےمیدان میں لایا گیا ۔ان وردیاں پھاڑ دی گئیں،پیروں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں ،ہتھکڑیوں کے ذریعے ہاتھ پشت پر باندھ دیئے گئے اور اسی حالت میں پریڈ کرنے پر مجبور کیا گیا۔مقامی سپاہی یہ مناظر دیکھ کر پیچ و تاب کھاتے رہے اور اندر ہیء اندر لاوا پکتا رہا،36گھنٹوں بعد ہی یہ لاوا تب پھٹ پڑا جب 10مئی کو اتوار کے دن میرٹھ چھائونی میں بغاوت ہوگئی۔حریت پسندوں نے چھائونی میں موجود انگریز افسروں کو قتل کرنے کے بعد لشکر کی شکل میں دہلی کا رُخ کیا جہاں آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر لال قلعے میںعلامتی بادشاہ تھے۔

میرٹھ اور دہلی میں بغاوت کی خبر 12مئی کو لاہور پہنچی تو میاں میر چھائونی میں مقامی سپاہیوں کو غیر مسلح کردیا گیا مگرحریت پسندی کی لہر نہ تھم سکی۔باری علیگ اپنی کتاب ’’کمپنی کی حکومت‘‘میں لکھتے ہیں کہ تیس جولائی کو ایک سپاہی پرکاش سنگھ اپنی تلوار لیکر نکلا اور اپنے ساتھی سپاہیوں سے کہنے لگا کہ وہ فرنگیوں کو قتل کردیں۔سب سے پہلے اس نے میجر سپسنر کو قتل کیا۔اسی اثناء میں آندھی چلنے لگی۔باغی سپاہی میاں میر سے بھاگ نکلے ۔فوری گرفتار ہونے والوں کو توپ دم کردیا گیا۔باغی سپاہی جن کی مجموعی تعداد 282تھی انہیں عید الاضحیٰ کے دن دس ،دس کی ٹولیوں میںموت کے گھاٹ اتارا گیا۔حریت پسندوں کی قربانیوں اور انگریز سرکار کے سفاکانہ مظالم کی داستان اسلئے ہم تک نہ پہنچ سکی کہ انگریزوں کے وظیفہ خواروں نے ہی تاریخ مرتب کی ۔

آکسفورڈ پبلشرز کے زیر انتظام شائع ہونے والی کتاب Punjab and the war of independence 1857-58جس میں مصنف تراب الحسن سرگانہ نے پنجاب کے مزاحمتی کردارکو اجاگر کیا ہے اس میںلکھا گیا ہے کہ سرسید احمد خان کے برطانوی حکومت سے خوشگوار تعلقات تھے۔وہ 1857ء کی جنگ آزادی کے وقت برطانوی حکومت کے عہدیدار تھے اور بعد ازاں انہیں وائسرائے کی کونسل کا رُکن نامزد کیا گیا۔انہیں نائٹ کمانڈر کا خطاب بھی دیا گیا۔اسی طرح اسداللہ غالب کہ برطانوی حکومت کے وظیفہ خوار تھے۔محمد ذکااللہ کوبرطانوی حکام کی طرف سے خان بہادر اور شمس العلما کا خطاب دیا گیا۔لہٰذا ان تینوں مسلم اسکالرز کی لکھی ہوئی تاریخ پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔

پنجاب کے سرداروں ،جاگیر داروں اور گدی نشینوں کی اکثریت نے اس جنگ آزادی میں انگریزوں کا ساتھ ضرور دیا لیکن یہ تاثر درست نہیں کہ پنجاب نے مزاحمت نہیں کی۔سچ تو یہ ہے کہ پنجاب کے مفادات کو انگریز سرکار کی آمد سے کوئی خاص نقصان نہ پہنچا تھا بلکہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی نسبت ایک اچھی حکومت میسر آئی مگر پنجاب کے لوگوں نے آزادی کے حصول کیلئے تن من دھن کی بازی لگائی۔بھارتی اور پاکستانی پنجاب کے علاوہ موجودہ صوبہ خیبرپختونخوا اور کئی ریاستیں بھی تب پنجاب کا حصہ تھیں ۔پنجاب کے چیف فنانشل کمشنر رابرٹ منٹگمری نے میوٹنی رپورٹس میں 12مقامات کا ذکر کیا ہے جہاں برطانوی فوج کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ان 12مقامات میں فیروزپور، مردان کا علاقہ ہوتی،جالندھر ،پھلور،جہلم ،سیالکوٹ ،تھانیسر،لاہور ،پشاور، امبالہ اورمیانوالی شامل ہیں۔ ملتان ڈویژن میں ضلع گوگیرہ جبکہ راولپنڈی ڈویژن میں مری کے مقام پرانگریز سرکار کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔دیگر علاقوں کے برعکس یہاں فوجی بغاوت کے بجائے عام افراد کی طرف سے شدید مزاحمت کی گئی ۔اس پر مزید بات آئندہ کریں گے۔

تازہ ترین