• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی سلامتی کسی بھی ملک کی بنیاد ہوتی ہے، جو نہ صرف بیرونی خطرات سے تحفظ فراہم کرتی ہے بلکہ اندرونی استحکام کو بھی یقینی بناتی ہے۔جغرافیائی، معاشی اور سماجی چیلنجز سے نبرد آزماپاکستان جیسے ملک میں قومی سلامتی کا تصور روایتی فوجی طاقت سے آگے بڑھ کر معاشی، غذائی اور ماحولیاتی عوامل کو بھی شامل کرتا ہے۔ غذائی سلامتی، جو قومی سلامتی کا ایک اہم جزو ہے، اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ ہر شہری کو مناسب مقدار اور معیار کی غذا دستیاب ہوعالمی بھوک انڈیکس 2024ءمیں اس وقت پاکستان 109ویں نمبر پر ہے جواس بات کی نشاندہی ہے کہ غذائی عدم تحفظ آج ہمارے لیے بڑا چیلنج ہے۔دیکھا جائے تو قومی سلامتی کا روایتی تصور بیرونی جارحیت اور دہشت گردی جیسے خطرات پر مرکوز ہوتا ہے، لیکن جدید دور میں یہ معاشی استحکام، توانائی اور غذائی تحفظ پر مبنی ہے۔ پاکستان جو اپنی مغربی اور مشرقی سرحدوں پر بھارت اور افغانستان جیسے ہمسایوں کیوجہ سے فوجی چیلنجز کا شکار ہے، اندرونی طور پر غذائی عدم تحفظ بھی اسے کمزور کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق، پاکستان میں 8.4ملین افراد شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں، جو سماجی بے چینی اور سیاسی عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی 2022ءمیں غذائی سلامتی کو ایک کلیدی عنصر قرار دیا گیا ہے، کیونکہ بھوک اور غربت سے پیدا ہونیوالے مسائل دہشت گردی اور قبائلی تنازعات کو ہوا دیتے ہیں۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے جسکی آبادی کا 45 فیصد زراعت پر منحصرہے، لیکن موسمیاتی تبدیلیاں، سیلاب اور خشک سالی ہماری غذائی پیداوار کو شدت سے متاثر کر رہی ہیں۔ انٹر نیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (IAEA) کی 2025کی رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں گندم اور چاول جیسی بنیادی فصلوں کی پیداوار پانی کی کمی، مٹی کی خرابی اور موسمیاتی دباؤ کی وجہ سے محدود ہو رہی ہے۔اس سلسلے میں غذائی عدم تحفظ کے حالیہ اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں۔ یونیسف کی 2025ءہیومینٹیرین ایکشن پلان رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں 17.7 فیصد بچے شدید غذائی کمی کا شکار ہیں۔ عالمی غذائی رپورٹ کے مطابق 5سال سے کم عمر بچوں میں 37.6 فیصد کےقدچھوٹے رہ گئے ہیں اور 40فیصد کی نشوونما متاثر ہوئی ہے۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف ہماری انسانی ترقی کو روک رہے ہیں بلکہ قومی معیشت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں کیونکہ غذائی قلت کا شکاربچے بالغ ہونے پر معاشرے کیلئے زیادہ منفعت بخش نہیں ہوپاتے ۔غذائی سلامتی قومی سلامتی کا لازمی جزو ہے، کیونکہ بھوک سماجی انتشار کا باعث بنتی ہے۔ پاکستان کی نیشنل فوڈ سیکورٹی پالیسی 2018ءاس بات کی توثیق کرتی ہے کہ غذائی تحفظ معاشی اور سیاسی استحکام کی بنیاد ہے، ایک مطالعہ کے مطابق، غذائی عدم تحفظ تنازعات کو ہوا دیتا ہے، جیسا کہ سندھ اور پنجاب میں پانی کی کمی سے پیدا ہونے والے تنازعات۔ قومی سلامتی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ غذائی بحران بیرونی طاقتوں کو مداخلت کا موقع دیتا ہے، جیسے افغانستان میں غذائی مسائل نے علاقائی عدم استحکام کو بڑھایا۔پاکستان میں غذائی کمی کی وجہ سے ہجرت اور شہری غربت بڑھ رہی ہے، جو دہشت گرد تنظیموں کیلئے آسان بھرتی کا ذریعہ بنتی ہے۔

اس کے علاوہ بیرونی قرضے، عالمی شعور اور قدرتی آفات بھی قومی سلامتی کو کمزور کرتے ہیں۔غذائی تحفظ کے بغیر فوجی طاقت بھی کمزور ہو جاتی ہے۔ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں غذائی سلامتی شامل ہے اور نیشنل فوڈ سیکورٹی پالیسی 2018 کے تحت، زرعی تحقیق، بیج قوانین اور کیڑے مار ادویات کے قوانین کو مضبوط بنایا گیا ہے۔ وزارت قومی غذائی تحفظ اور تحقیق (MNFSR) غذائی انفارمیشن اور ابتدائی وارننگ سسٹم (FSIEWS) کو فعال کر رہی ہے اور پاکستان ایگریکلچرل سائنس ٹاسک فورس (PAFST) 2025میں قومی غذائی تحفظ کو مضبوط بنانے کیلئے لانچ کیا گیا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرتا ہے۔ان پالیسیوں کی وجہ سے کچھ حد تک بہتری تو آئی ہے مگر ان پالیسیوں پر عمل درآمد ہمارا بہت بڑا مسئلہ ہے۔حالیہ سیلاب سے فصلوں کی بڑے پیمانے پر تباہی نے بھی ہماری فوڈ سیکورٹی کو کمزور کیا ہے جبکہ آبادی (2.4 فیصد سالانہ)کا تیزی سے اضافہ غذائی طلب بڑھا رہا ہے جسکی وجہ سے فوڈ سپلائی پیچھے رہ گئی ہے پھر مہنگائی اورگندم اور چینی کی درآمدات پر انحصار قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔

علاقائی عدم مساوات، جیسے بلوچستان میں 50 فیصد سے زائد غذائی کمی، سماجی تقسیم بڑھا رھی ہے،اوپر سے سیاسی عدم استحکام اور بدعنوانی جیسے مسائل حکومتی پالیسیوں کے نفاذ میں رکاوٹ ہیں چناچہ ان چیلنجز کی وجہ سے 2026ءتک غذائی عدم تحفظ مزید بڑھ سکتا ہے۔اس سنگین صورتحال کا تدارک کرنے اور غذائی و قومی سلامتی کو مضبوط بنانے کیلئے سب سے پہلے ہمیں زرعی تحقیق میں سرمایہ کاری بڑھانی ہو گی،زیادہ پیداوار والے بیج، ڈرپ ایریگیشن سسٹم،سماجی ترقی کے پروگراموں کو وسعت اور انکی نگرانی کو بہتر بنانے کے علاوہ موسمیاتی مزاحمت کیلئے اپنے آبی ڈھانچے کو مضبوط،نئے ڈیمز ،ذخائر اور شجر کاری پر ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا۔ نئی نسل میں تعلیم اور آگاہی مہموں سے غذائی عادات بہتر بنانا ہو گی اور بالخصوص سارک( SAARC) پلیٹ فارم کو پھر سے سرگرم کر کے علاقائی تعاون سے غذائی تجارت اور تحفظ کو یقینی بنانا ہو گاجس سے نہ صرف ہماری فوڈ بلکہ نیشنل سیکورٹی کو بھی مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔ مضبوط غذائی نظام استحکام کی ضمانت دیتا ہے۔ حالیہ اعداد و شمار اور چیلنجز کے باوجوداگر حکومت، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی شراکت دار مل کر کام کریں تو پاکستان مکمل غذائی تحفظ حاصل کر سکتا ہے جو نہ صرف ہمیں ایک صحت مند قوم بنائے گا بلکہ ایک محفوظ پاکستان کی بنیاد بھی رکھے گا۔

تازہ ترین