• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خواجہ سراؤں کو صوابی سے ضلع بدر کیا جائیگا، صوابی کے بڑوں نے فیصلہ سنا دیا۔ نہ صرف فیصلہ سنا دیا بلکہ ایک 11رکنی کمیٹی بھی بنا دی جو اس بات کو یقینی بنائے گی کہ خواجہ سرا از خود ضلع چھوڑ جائیں، بصورتِ دیگر مقامی پولیس کے ساتھ مل کر اس مقصد کیلئے آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کیا جائیگا۔ صوابی کے خواجہ سراؤں پر الزام ہے کہ وہ ایسی ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث تھے جو علاقے کے نوجوانان میں اخلاقی خرابیوں کا باعث بن رہی تھیں۔صوابی سے متعلق یہ خبر تو اب کچھ پرانی ہو گئی، خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں سے بھی مگر وقتاً فوقتاً ایسی ہی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ آئے روز کہیں نہ کہیں ان کو موت کے گھاٹ بھی اتار دیا جاتا ہے۔ خواجہ سراؤں کے حوالے سے ملک کا مجموعی ریکارڈ بھی کوئی ایسا تسلی بخش نہیں۔

ابھی پچھلے ماہ کی بات ہے کراچی میں ایک ہی رات تین خواجہ سراؤں کی لاشیں ملیں جنہیں گولی مار کر ابدی نیند سلا دیا گیا تھا۔سچ پوچھیں تو ہمیں بھی ان خواجہ سراؤں کا سرخی پاؤڈر لگانا، لگا کر چوکوں چوراہوں پر کھڑے ہو جانا، لہک لہک کربھیک مانگنا، فنکشنوں میں ناچنا گانا ایک آنکھ نہیں بھاتا۔ بھانا تو دور کی بات، باقاعدہ برا لگتا ہے۔ تو کیا اس کے بدلے میں ان خواجہ سراؤں سے جینے کا حق چھین لیں؟اس سے بھی اہم سوال یہ کہ کیا کبھی کسی نے لمحہ بھر توقف کیا اور سوچا کہ ان خواجہ سراؤں کو ایسے حالات سے دوچار کون کرتا ہے؟مجھے کہنے دیجیے پورا معاشرہ اس حوالے سے قصور وار ہے۔ خواجہ سرا خدا کے تخلیق کردہ ہماری طرح کے ہی انسان ہیں، ہاں جسمانی اور ذہنی طور پر ہم سے مختلف ہوتے ہیں لیکن اس میں ان کا تو کوئی قصور نہیں ہوتا۔ معاشرے میں مگر اس امر کا کوئی ادراک نہیں، ان کی کوئی قبولیت نہیں۔

خواجہ سرا ہونے کی علامات عام طور پرسنِ بلوغت کو پہنچنے پر عیاں ہوتی ہیں۔ پھر نفرت اور دھتکارنے کا وہ سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو تا دمِ مرگ جاری رہتا ہے۔ اگر زیرِ تعلیم ہوں تو دیگر بچے ان کو اس قدر ہراساں کرتے ہیں کہ ادارہ چھوڑنا پڑتا ہے۔ ہر طرح کے تعلیمی اداروں کے دروازے ان پر بند ہو جاتے ہیں۔ اور تو اور ان کے گھر والے بھی ان کو گھر نہیں رکھتے کہ معاشرے کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے، اور انکے بہن بھائیوں سے بھی کوئی شادی نہ کرے گا۔ پس ایک روز، رات کے اندھیرے میں انہیں ہمیشہ کیلئے گھر سے نکال دیا جاتا ہے۔ایسے حالات میں خواجہ سرا چاہیں بھی تو کوئی تعلیم یا ہنر حاصل نہیں کر سکتے۔ اور اگر کسی طور ایسا کر بھی لیں تو کون ہے جو ان کو ملازمت دینے پر آمادہ ہے؟

در بدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے اپنے جیسوں کے پاس جا پہنچتے ہیں اور پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے بھیک مانگنے، ناچنے گانے اور نہ جانے کون کون سے کام ہیں جو انہیں کرنا پڑتے ہیں۔ تعصب اور ہراسانی کا شکار تو وہ بنتے ہی ہیں لیکن یہ دھڑکا بھی لگا رہتا ہے کہ نہ جانے کب اورکس جانب سے کوئی گولی آئے گی اور ان کی روح کو تن سے جدا کر دے گی۔ اور اب یہ ضلع بدری کے احکامات!

صوابی کی کمیٹی سے میری دست بستہ گزارش ہے کہ جب انہوں نے معاشرے کو خواجہ سراؤں کی علت، سے پاک کرنے کا بیڑا اٹھا ہی لیا ہے تو پھر اس مقصد کے لیے دیرپا اور موثر اقدامات کرنے سے گریز نہ کریں۔ مسجد، منبر، مدرسہ، اسکول اور تمام ایسے دوسرے پلیٹ فارم استعمال کرتے ہوئے صوابی کے رہنے والوں میں اس شعور کو پھیلائیں کہ خواجہ سرا بھی خدا کی ہی بنائی ہوئی ایک مخلوق ہیں اور ان سے نفرت کرنا غلط ہے۔ والدین کو بھی ترغیب دی جائے کہ کسی تعصب کا نشانہ بنائے بغیر وہ اپنے ایسے بچوں کی دیگر بچوں کی طرح ہی پرورش کریں۔ گُرو اور چیلے کے نظام کا تدارک اسی طور ممکن ہے کہ خاندان کے ادارے کو مضبوط کیا جائے۔ تعلیمی اداروں کے دروازے بھی ان بچوں پر کھلوائے جائیں تاکہ وہ علم و ہنر سیکھ کر باعزت روزگار کے لیے تیار ہو سکیں، اور اس کی ایک عملی مثال گزشتہ پانچ سال سے ملتان میں موجود بھی ہے۔ تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دینے کے لیے ایسے تمام بچوں کو وظائف دیے جانے چاہئیں۔ جب پڑھ لکھ جائیں تو انہیں موقع دیا جائے کہ اور نہیں تو کم از کم ایسے پیشے اپنا سکیں جو اِن کے میلان اور رجحان سے مطابقت رکھتے ہوں۔ حکومت بھی سرکاری و نجی ملازمتوں میں خواجہ سراؤں کے لیے کوٹا مقرر کرے اور اس پر عملداری یقینی بنائے۔ بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کو بھی پابند کیا جائے کہ ہنر مند اور تعلیم یافتہ خواجہ سراؤں کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے آسان شرائط پر قرض فراہم کریں۔

بوڑھے خواجہ سراؤں کی کفالت کا بیڑا بھی ریاست اٹھائے اور سماجی بہبود کے ادارے ان کے لیے وظائف مقرر کریں۔ دوسری جانب خواجہ سراؤں کو بھی تعلیم و ہنر کی صورتحال بہتر ہونے پر ناپسندیدہ اعمال ترک کر کے باعزت روزگار کے ذرائع اپنانا ہوں گے۔ مگر خیال رہے کہ معاشرے کا متعصبانہ رویہ اور خود خواجہ سراؤں کے خاص طور اطوار اس قدر جڑ پکڑ چکے ہیں کہ تبدیلی کا یہ عمل خاصا صبر آزما ہو گا۔ ان سب اقدامات کے باوجود اگر مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوں تو پھر صوابی کی اس کمیٹی کو سر جوڑ کر بیٹھنا چاہیے کہ آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہو سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر اگر ایک ضلع کے بعد دوسرا ضلع خواجہ سراؤں کو اسی طرح نکالتا رہا تو یہ ضلع بدری کا سلسلہ کہاں جا کر رکے گا؟ ملک کی مشرقی اور مغربی سرحد پر تو باڑ لگی ہوئی ہے، شمال میں پہاڑ تنے کھڑے ہیں۔ ہاں جنوب میں بحیرہ عرب ہے، انہیںاس میں دھکیلا جا سکتا ہے!

تازہ ترین