4 مارچ 2024ءکو جب ملک کے 24ویں وزیر اعظم کی حیثیت سے شہباز شریف نے حلف اٹھایا تو ان کے سامنے چیلنجز کے پہاڑ کھڑے تھے۔ سیاسی بحرانوں کا تو ایک انبار لگا ہوا تھا مگر ملکی سطح پر سب سے اہم معیشت اور خارجہ تعلقات کے بحران کا سامنا تھا۔ پی ڈی ایم دور میں امریکہ کی جو بائیڈن حکومت کے ساتھ تعلقات کچھ بہتر ہونا شروع ہوئے تھے اور بائیڈن حکومت نے آئی ایم ایف کے معاملے پر پاکستان کی حمایت بھی کی تھی مگر اب بائیڈن حکومت کا اختتام ہو رہا تھا لہٰذا پاک امریکہ تعلقات اور اسی سے منسلک آئی ایم ایف پیکیج کے مستقبل پر خاصے سوالیہ نشان تھے۔ آئی ایم ایف کیساتھ پاکستان کا معاشی مستقبل جڑا ہوا تھا۔ خلیجی ملکوں سے تعلقات تاریخ کی نچلی ترین سطح پر تھے۔ ان تمام چیلنجز میں شہباز شریف نے ایسی کارکردگی دکھائی کہ اب تمام معاملات مثبت سمت میں گامزن ہوتے ہیں۔ معاشی دیوالیہ پن کا خطرہ کوسوں دور جا چکا۔ پاک امریکہ تعلقات تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں اور سعودی عرب کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا تعطل نہ صرف دور ہوا بلکہ آج سعودی عرب اپنے دفاع کے حوالے سے صرف پاکستان پر بھروسہ کرتا ہے اور مشترکہ دفاعی معاہدے سے یہ بات پوری دنیا پر عیاں ہو چکی ہے۔ شہباز حکومت کی ان کامیابیوں کے پیچھے بہتر سفارت کاری پنہاں ہے۔ شہباز شریف نے اپنے دورِِ حکومت میں نہ صرف علاقائی ہم آہنگی کو فروغ دیا بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے معاشی و سیاسی مفادات کے تحفظ کیلئے مو ثر حکمتِ عملی اپنائی۔عالمی تعلقات کے میدان میں کسی بھی ملک کی کامیابی اس کے رہنماؤں کی سفارتی بصیرت سے منسلک ہوتی ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے جغرافیائی محلِ وقوع، سلامتی کے خدشات اور معاشی انحصار کے گرد گھومتی رہی ہے۔ شہباز شریف، جن کی عمومی شہرت ایک انتظامی صلاحیتوں کے حامل سیاسی رہنما کی تھی، نے خارجہ محاذ پر ایک نئی طرز کی پالیسی اپنائی ایسی پالیسی جو محض نظریاتی یا جذباتی نہیں بلکہ نتائج پر مبنی تھی۔
شہباز شریف کی سفارتی اور خارجہ پالیسی میں طاقت کے توازن اور اقتصادی مفاد کو ترجیح دی گئی۔ ان کی حکمتِ عملی کا بنیادی اصول یہ رہا کہ ”دوستی سب کے ساتھ مگر انحصار کسی پر نہیں“۔ یہی فلسفہ انہیں غیر جانبدار لیکن باوقار سفارتی رویہ اپنانے کا درس دیتا ہے۔ چین کے ساتھ تزویراتی تعلقات کو شہباز شریف نے عملی اقدامات کے ذریعے نئی بلندیوں تک پہنچایا۔ ان کی کوششوں سے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کے تحت کئی رکے ہوئے منصوبے بحال ہوئے۔ چین کی قیادت نے ان کی انتظامی رفتار کو ”شہبازا سپیڈ“ کا نام دیا جو ان کے قابلِ اعتماد شراکت دار ہونے کی علامت بن گیا۔ چینی میڈیا نے انہیں ایک ایسا عملی رہنما قرار دیا ”جو وعدے پورے کرتا ہے“۔اگر خلیجی ممالک کے ساتھ معاشی سفارت کاری کی بات کی جائے تو عرب دنیا کے ساتھ تعلقات میں اقتصادی مفاد پر مبنی سفارت کاری اپنائی گئی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ قریبی تعلقات نے پاکستان کو مالی بحران سے نکالنے میں بے پناہ مدد دی۔ قطر کے ساتھ توانائی کے معاہدے، ترکیہ کے ساتھ دفاعی اور صنعتی شراکت داری اور او آئی سی میں فعال کردار ان کی کامیاب حکمتِ عملی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے ان دوروں کو غیر ملکی نیوز اداروںنے ”stabilizing diplomacy“ کے طور پر بیان کیا۔اگر مغربی دنیا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو باہمی تعلقات میں ایک توازن واضح طور پر نظر آتا ہے۔ ماضی کی طرح اب پاکستان مغربی ممالک کا دست نگر نہیں بلکہ ان کا ایک اہم شراکت دار ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے امریکہ اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات میں حقیقت پسندی اور بے مثل توازن کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں اعتماد سازی پر زور دیا، خصوصاً دہشت گردی کے خلاف تعاون کے تناظر میں۔ اسی طرح یورپی یونین کے ساتھ جی ایس پی پلس اسٹیٹس کو برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کی جو پاکستان کی برآمدات کیلئے اہم ہے۔ برطانیہ اور فرانس کے ساتھ تعلیم، توانائی اور ماحولیاتی منصوبوں میں دوطرفہ روابط کو فروغ دیا گیا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اقوامِ متحدہ، شنگھائی تعاون تنظیم اور دیگر عالمی فورمز پر پاکستان کا مو قف موثر انداز میں پیش کیا۔ انہوں نے کشمیر اور فلسطین کے مسئلوں پر اخلاقی موقف اختیار کرتے ہوئے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا۔ اقوامِ متحدہ کے 2023ءکے کلائمیٹ سَمٹ میں ان کی تقریر نے بھرپور عالمی توجہ حاصل کی جہاں انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی کے باعث پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلابوں کا معاملہ اجاگر کیا۔اگر بین الاقوامی اداروں کے ساتھ معاشی سفارت کاری کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کے معاشی افق پر منڈلاتے بادلوں کا چھٹ جانا ہی اس کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مارچ 2024ءکی نسبت آج پاکستان کی معیشت کہیں زیادہ مستحکم و مضبوط اور ترقی کی جانب گامزن ہے۔ 2024ءمیں آئی ایم ایف کے ساتھ سات ارب ڈالر کے پیکیج کی کامیاب منظوری کو بین الاقوامی میڈیا نے ”A turning point for Pakistan's economic credibility“ قرار دیا۔
آج ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ موجودہ دور میں پاکستان کہاں کھڑا ہے اور عالمی افق پر اسے کیسے دیکھا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں پاکستان کا تاثر پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں خاصا تبدیل ہو چکا ہے۔ بالخصوص پاک بھارت جنگ کے بعد پانسا پلٹ چکا ہے۔ آج شہباز شریف کو ایک عملی، منظم، اور مصالحت پسند رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔عالمی اخبارات نے انہیں پاکستان کے ” Reform riented Prime Minister“ کے طور پر سراہا۔ الغرض انتہائی کم مدت میں شہباز حکومت کی سفارتی پالیسی نے ملک کو اس کا کھویا ہوا مقام جس طرح واپس دلایا ہے اور جو حکمتِ عملی اپنائی ہے‘ یہ مثال نہ صرف ملکی تاریخ بلکہ انٹرنیشنل ریلیشنز میں بھی ایک کیس اسٹڈی کے طور پر یاد رکھی جائے گی ۔